بے اولاد اور تنہا عورت: خطرے کی گھنٹی یا ایک نئی زندگی کا سنہری موقع

ڈاکٹر لبنیٰ مرزا
حال ہی میں ‌ ایک مضمون نظر سے گزرا جس کو بنت جمیلہ نے لکھا ہے۔ اس مضمون میں ‌ انہوں ‌ نے ان خواتین کی زندگی کی طرف توجہ دلائی ہے جن کو ہم سب جانتے ہیں۔ ہم میں ‌ سے کون نہیں ہوگا جس کے ساتھ پڑھنے والی اسٹوڈنٹس، پڑوسی یا رشتہ داروں ‌ میں ‌ ایسی خواتین نہ ہوں جن کی شادی نہیں ‌ ہوئی، بچے نہیں ‌ ہوئے یا ان کی شادی ہوکر طلاق ہوگئی اور وہ ادھیڑ عمر میں ‌ بچوں ‌ کی طرح‌ اپنے بھائیوں ‌ کے گھروں میں ‌، اپنے ماں باپ کے گھروں ‌ میں ‌ ڈر سہم کر زندگی گذارنے پر مجبور ہیں جہاں ‌ ان کے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، لوگوں ‌ سے ملنے جلنے یا باہر آنے جانے پر کڑی پابندیاں ‌ ہیں۔ یہ زندگیاں ‌ واقعی افسوس کے لائق ہیں۔ آج ہم ان کے تاریخی اسباب پر غور کریں ‌ گے، حالیہ واقعات کا ذکر ہوگا اور کچھ مستقبل میں ‌ تبدیلی لانے پر بات بھی ہوگی۔
ہم جانتے ہیں کہ پدرسری معاشرے میں ‌ خواتین خود ایک مکمل انسان نہیں ‌ سمجھی جاتیں ‌ بلکہ وہ ہر عمر اور زندگی کے دور میں ‌ بچوں ‌ کی حیثیت رکھتی ہیں جن کی دیکھ بھال کے لیے ایک آدمی کی ضرورت ہو۔ کیا یہ ایک سچائی ہے؟ نہیں! سماجی لحاظ سے کچھ ممالک میں ‌ ایسا ہے لیکن سائنسی اور انسانی حقوق کے لحاظ سے ایک نارمل زندگی گذارنے کے لیے کچھ بھی ایسا نہیں ‌ ہے جس کے لیے ایک خاتون کو ایک آدمی کی گارڈین شپ کی ضرورت ہو۔
بلوغت کی سب سے اہم بات یہی ہے کہ ہر بالغ انسان اپنا خود گارڈین ہوتا ہے۔ ایک بالغ انسان اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ سب انسان معاشرے کا اہم حصہ ہیں اور ایک پیچیدہ تانے بانے سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ انسان سب برابر ہیں۔ کسی کالے کو کسی گورے پر، کسی مرد کو کسی خاتون پر یا ایک یورپی کو کسی افریقی سے برتر درجہ نہیں ‌ دیا جاسکتا۔ ہر انسان کو اپنی زندگی میں ‌ تعلیم، صحت اور ایک محفوظ ماحول میں ملازمت کا برابر اور مکمل حق حاصل ہے۔
خواتین مکمل انسان ہیں۔ ان کو سب سے پہلے خود کو یہ یقین دلانا باقی ہے۔ ایک سنگل بغیر بچوں ‌ کی خاتون کی حیثیت سے آپ کی نئی زندگی اس وقت ہی شروع ہوگی جس دن آپ کو یہ سمجھ آجائے گی کہ یہ آپ کی واحد زندگی ہے۔ یہ 2019 ہے۔ جنوبی ایشیاء میں ‌ آج بھی ودھوا آشرم ہیں جہاں ‌ بیوہ خواتین کو سفید ساڑھی پہنا کر ان کا سر منڈوا کر آشرم بھیج دیا جاتا ہے چاہے ان کی عمر شادی کے وقت صرف آٹھ سال ہی ہو۔ ایسا کیوں ‌ ہے؟ ایسا معاشی وجوہات کی بنیاد پر ہے۔ اپنے ذہن میں ‌ سے خود کو بیچاری، مسکین، کمزور اور اکیلی سمجھنے کے بجائے اپنی طاقت کو گلے لگانا ہوگا۔
اس کہانی میں ‌ ان خاتون کی عمر چالیس سال سے کچھ اوپر بتائی گئی ہے۔ 18 سال کا بچہ بالغ ہوجاتا ہے جس کو ووٹ ڈالنے کا حق مل جاتا ہے اور وہ قانونی کانٹریکٹ سائن کرسکتا ہے اور اپنے جرائم کی سزا ایک بالغ کی حیثیت سے وصول کرتا ہے۔ ایک چالیس سال کی خاتون کے لیے اب یہ وقت آگیا کہ وہ خود کو 18 سال کا سمجھ لیں۔ یہ خاتون اپنی ایک دہائی سے زیادہ عرصے پر محیط ازدواجی زندگی میں بے اولاد رہیں۔ ہر انسان کے بچے نہیں ہوتے۔
خود کو مکمل انسان سمجھنے کے لیے ضروری نہیں ‌ ہوتا کہ اس کا دارومدار بچے پیدا کرنے کی صلاحیت پر مبنی ہے۔ کتنے لوگ مختلف سنڈرومز کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جن کے کبھی بچے نہیں ‌ ہوں ‌ گے۔ اگر کسی کے لیے بچے بہت ہی اہم ہیں تو وہ گود بھی لے سکتے ہیں۔ کراچی کی سڑکوں ‌ پر دس لاکھ بچے بے گھر ہیں۔ بچیاں ‌ طوائف بنتی ہیں اور بچے گوند سونگھ کر مر جاتے ہیں۔ ان کا نام حریم فرض کیا گیا ہے۔ حریم آپ خوش قسمتی سے تعلیم یافتہ ہیں اور برسر روزگار ہیں۔
حریم جس شہر میں مقیم ہیں وہاں ان کے قریبی عزیز اور بہن بھائی موجود نہیں۔ حریم کے رشتہ داروں میں اس شہر میں فقط ایک رشتہ دار خاتون اپنے کنبہ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ اس بات کو بھی اپنی خوش قسمتی جانیے۔ دیسی رشتہ دار سلگتی لکڑیوں ‌ کی طرح‌ ہوتے ہیں جو دور سے دھواں ‌ دیتی ہیں اور قریب آکر آگ میں ‌ بھڑک جاتی ہیں۔ دیسی رشتہ دار مشکل وقت میں ‌ غائب اور نصیحت دینے میں ‌ سب سے آگے ہوتے ہیں۔ امیر اور طاقت ور رشتہ داروں ‌ کے یہ قریبی رشتہ دار اور غریب اور کمزور رشتہ داروں ‌ کے لیے اجنبی بن جاتے ہیں۔
حریم اکیلی نہیں ‌ ہیں اور نہ ہی ان کو خود کو اکیلا سمجھنا چاہیے۔ ہزاروں ‌ اور لاکھوں ‌ خواتین انہی حالات کا سامنا کررہی ہیں۔ حریم کو مبارک باد پیش کی جاتی ہے کہ انہوں ‌ نے اپنے رہنے کے لئے جگہ کرائے پر لے لی ہے۔ میرا بیٹا جو اب 19 سال کا ہے وہ بھی اپنے لیے کرائے پر اپارٹمنٹ ڈھونڈ رہا ہے۔ اپنے ماں ‌ باپ کے گھر کو چھوڑ کر اپنے بل بوتے پر رہنے سے یہ سمجھ میں ‌ آتا ہے کہ بل کیسے ادا کرنے ہیں اور اپنے گھر کو خود کیسے چلانا ہے۔
یہ بلوغت کی ٹریننگ کا اہم حصہ ہے۔ حریم کا سب سے بڑا مسئلہ نئے سرے سے، اپنی نئی حیثیت میں تعلقات بنانا اور پہلے سے موجود تعلقات کو برقرار رکھنا بتایا گیا ہے۔ انسان ایک سماجی جانور ہے اور انسانوں کو دوسرے انسانوں کی ضرورت ہے۔ ہر انسان کی سب سے بڑی خواہش اور ضرورت یہ ہے کہ اس کو دوسرے انسان قبول کریں۔ ہم اپنی زندگی میں ‌ کبھی بھی سب انسانوں کو خوش نہیں ‌ کرسکتے۔ جو بھی انسان ناکامی دیکھنا چاہتا ہو وہ کوشش کرکے دیکھے کہ اپنے اردگرد تمام انسانوں ‌ کو خوش کرے۔
ہمارے کلینک سے ہر مریض خوش واپس نہیں ‌ جاتا۔ ہمارے خود بہت سارے رشتہ دار ہیں اور ان میں ‌ سے کچھ نے ایسی فرمائشیں ‌ کیں ‌ کہ صاف جواب دینا پڑا۔ ایک آنٹی نے کہا کہ میں ‌ حج پر جارہی ہوں، تم مجھے لیٹر لکھ دو کہ مجھے فلو ویکسین لگی ہوئی ہے۔ میں ‌ نے ان سے کہا کہ آپ فلو ویکسین لگوا لیں یہ آپ کے لیے اور آپ کے گرد دیگر حاجیوں ‌ کی صحت کے لیے بہتر ہے۔ فون رکھ کر میں ‌ نے یہ بھی سوچا کہ کاش ان آنٹی کو حج کی روح کی سمجھ ہوتی۔
معاشی طور پر خود کفیل ہونا ہر انسان کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ آج کی پیچیدہ اور مشکل دنیا میں ‌ اپنی اولاد کو اس سطح پر پہنچا دینا بھی ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس بات پر بھی حریم کو مبارک باد ملنی چاہیے۔ پاکستان اور ہندوستان غریب ممالک ہیں اور ان میں ‌ بہت سارے ایسے قوانین ہیں جو خواتین کے ساتھ تعصب کرتے ہیں ‌ اور ان کے حقوق سلب کرنے میں ‌ حصہ دار ہیں۔ لیکن پھر بھی میں ‌ یہ سمجھتی ہوں ‌ کہ وہ سعودی عرب سے بہتر ہیں۔
کم از کم وہاں اس طرح‌ باقاعدہ گارڈین شپ کا نظام نہیں ‌ ہے۔ اس کا فائدہ اٹھائیں۔ حریم نے طلاق کے بعد اپنے دوستوں ‌ اور رشتہ داروں ‌ کے دائرے میں ‌ سماجی تنہائی محسوس کی جو کہ کسی بھی انسان کے لیے ایک صدمے کی بات ہے۔ دل کا دروازہ اندر سے کھلتا ہے اور ہم صرف دستک دے سکتے ہیں۔ کسی کو بھی زبردستی دوست نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ اگر آپ کی نئی زندگی ان پرانے دوستوں ‌ کے لیے ناقابل قبول ہے تو یہ الوداع کہنے کا لمحہ ہے۔ ایک سچا دوست زندگی کے ہر موڑ پر آپ کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ یہ نئے دوست بنانے کا وقت ہے۔ آئے ول بی یور فرینڈ!
کیا آپ نے گیم آف تھرون سیریز دیکھی ہے؟ اس میں ‌ لینسٹر بونے کا کردار بادشاہ کے باسٹرڈ سے کہتا ہے کہ اپنی کمزوری کو ڈھال کی طرح‌ پہن کر چلو تاکہ اس سے کوئی تمہیں ‌ نقصان نہ پہنچا سکے۔ جس بات سے لوگ سب سے زیادہ پریشان ہوتے ہیں وہ ہی سب سے پہلے اجنبیوں ‌ کے آگے رکھتے ہیں تاکہ ان کو فوراً پتا چل جائے کہ یہ تعلق آگے بڑھے گا یا یہاں سے ہی ختم ہوجائے گا۔ اس کے لیے امریکہ میں ‌ ایک لطیفہ ہے کہ بار میں پہنچتے ہی پتا چل جاتا ہے کہ کون ملحد ہے اور کون یہودی کیونکہ وہ پہلے پانچ منٹ میں ‌ خود ہی یہ بتا دیتے ہیں۔
کہانی کے مطابق ان کے میکے کے تعلق دار لوگوں میں سے ایک خاتون نے اس کو احساس دلایا کہ اس نے اپنے شوہر کو چھوڑ کر کتنی بڑی غلطی کی ہے۔ اسی طرح‌ کے لوگوں ‌ کی وجہ سے طلاق کا پروسس اور بھی لمبا اور تکلیف دہ ہوجاتا ہے کیونکہ ایک پرتشدد تعلق میں واپس جانا ایک دائرے کا سفر ہوتا ہے۔ انسان ایک دم نہیں بدلتے وہ آہستہ آہستہ وقت اور تجربات کے لحاظ سے اپنی ذاتی رفتار سے بدلتے ہیں۔ اس لیے حریم، شکر کریں ‌ کہ یہ خاتون آپ کی زندگی کے منظر سے غائب ہوگئیں۔ حریم اس کوشش میں ‌ مصروف ہیں کہ اپنے رشتہ داروں اور والدین کے دوستوں ‌ کے دائرے میں ‌ دوستیاں قائم کریں جس میں ‌ ان کو کچھ کامیابی نہیں ہورہی۔
حریم کو ایک صاحب نے دوسری شادی کرلینے کا مشورہ بھی دیا ہے۔ میں ‌ آپ کو یہ بتا سکتی ہوں ‌ کہ دوسری شادی کرلینا تبھی آپ کے لیے اچھا ہوگا جب آپ اپنی خوشی اور محبت سے اپنے برابر تعلیم یافتہ آدمی کو دوبارہ اس رشتے میں ‌ قبول کریں۔ تعلیم و تربیت میں ‌ صنفی امتیاز کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی ذمہ داریوں ‌ میں ‌ جکڑا ہوا آدمی اکیلا نہیں ‌ آتا اس کا پریوار بھی ساتھ میں ‌ آجاتا ہے۔ پہلا سسرال کیسا تھا؟
جن خواتین نے معاشرے میں ‌ ایک روایتی نارمل چہرہ دکھانے کے لیے جیسے تیسے شادیاں ‌ کربھی لیں تو وہ سب اپنے گھروں ‌ میں ‌ خوش نہیں ہیں۔ مجھے کافی خواتین میسج بھیجتی رہتی ہیں۔ ایک نے لکھا کہ دوسرے شوہر کی وہ دوسری بیگم ہیں۔ وہ ان کو خرچہ نہیں دیتے اور یہ خود کو اور اپنے پہلی شادی سے ایک بچے کو خود سپورٹ کررہی ہیں۔ جب آپ اپنے پیروں ‌ پر کھڑی ہیں تو محض روایتی معاشرے کو دکھانے کے لیے ایک آدمی گھر میں ‌ رکھنے سے کیا فائدہ ہوگا؟ اس زندگی کا تو آپ کو پہلے سے تجربہ ہے۔ اب کچھ نیا تجربہ کریں۔
حریم کے لیے کچھ مشورے یہ ہیں۔
دوستوں کو تلاش کرنے کے لیے خود ایک دوست بن جائیں۔ دوسرے انسانوں ‌ کی محبت ڈھونڈنے سے پہلے خود سے محبت کریں۔ آپ اپنی تنخواہ سے ایک کاؤنسلر سے کانسلٹ کریں، اپنے زخم بھرنے پر کچھ وقت خرچ کریں، خود میں ‌ انویسٹ کریں۔ بچپن میں ‌ وہ کیا چیزیں تھیں جو آپ ہمیشہ سے کرنا چاہتی تھیں؟ پیانو بجانا، ٹیبل ٹینس کھیلنا، سؤئمنگ سیکھنا، گانا، کتھک، زومبا، تقریری مقابلہ؟ شہروں ‌ میں ‌ ہر طرح‌ کی ایکٹیویٹیز موجود ہیں۔
اگر آپ کو کسی چیزمیں ‌ دلچسپی ہے اور وہ موجود نہیں ہے تو آپ خود بھی شروع کرسکتی ہیں جیسا کہ ٹوسٹ ماسٹرز کا پروگرام۔ سوشل میڈیا کے ذریعے آپ کسی بھی گروپ کا حصہ بن سکتی ہیں جو دلچسپیوں ‌ کے گرد گھومتا ہو۔ میٹ اپ ڈاٹ کام کب سے دلچسپیوں ‌ کے گرد لوگوں ‌ کو اکٹھا کررہا ہے۔ دنیا سکڑ گئی ہے۔ کیا کبھی آپ نے ٹاور آف پیسا، نیو یرز ان نیویارک یا ویٹیکن سٹی یا آئفل ٹاور دیکھنے کی خواہش کی تھی؟ کیا آپ نے کبھی اڑتے جہاز میں ‌ سے پیراشوٹ پہن کر چھلانگ ماری ہے؟
یہی موقع ہے کہ اپنے جیسی خواتین کا گروپ بنا کر ایک دوسرے کو سپورٹ کریں اور دنیا دیکھیں۔ اپنی زندگی میں ‌ خوش رہیں۔ وقت کے ساتھ آپ کو اندازہ ہوگا کہ جب آپ لوگوں ‌ کے پیچھے بھاگنا اور ان کی قبولیت چاہنا بند کردیں ‌ گی تو وہ وقت بھی آئے گا کہ یہی لوگ خود ہی پلٹ کر آپ سے مدد مانگیں گے اور آپ کو دعوتیں ‌ بھی دیں ‌ گے لیکن آپ کے پاس وقت نہیں ‌ ہوگا۔