آج ویلنٹائن ڈے تھا، گذشتہ برسوں کے برعکس اِس سال، اِس ممنوعہ دن کے حوالے سے بکثرت تنبیہی پیغامات موصول ہوئے۔ اِن پیغامات کی کثرت اُن ویڈیوز اور پیغامات پر مشتمل تھی جو اِس دن کو یومِ حیا و بے حیائی سے منسوب کئے ہوئے تھی۔ پیغامات میں اِس بات کی تکرار کی گئی تھی کہ:
” اِس دن کی نحوست سے ہمارا شخصی واجتماعی ایمان تباہ و برباد ہو رہا ہے نیز ہماری قوم، (جو ہماری نظر میں تو پہلے ہی شدید بے راہ روی کا شکار ہے) اب اُسے دل جیسی شکل کے غباروں، سرخ پھولوں ، معصوم بھالوﺅں اور جابجا تحائف کی شکل میں بے راہروی کی نئی جہات و خرافات میسر آ گئی ہیں، سو اپنے پیاروں کو، (جو ہمارے نزدیک اس طوفانِ بلا خیز میں کود پڑنے کو بے تاب و بے قرار ہیں) بچانے کے لیے اس دن کا بائیکاٹ کیجیے۔ کچھ حیا خود کیجئے اور کچھ اپنے عزیزوں، دوستوں اور رشتہ داروں کو آج مستعار دے دیجئے وغیرہ وغیرہ۔ “سچ بتاﺅں تو مجھے ویلنٹائن ڈے منانے یا نہ منانے جیسے مباحث میں کبھی دلچسپی نہیں رہی، ہاں البتہ میرے لیے اچنبھے کی بات وہ دُہائیاں ضرور ہیں جو سارا سال میں صرف اِس ایک دن، ایمان کے خراب ہونے پہ دی جاتی ہیں۔ مجھے اُس خستہ ایمان پر ترس آنے لگتا ہے جو بات بے بات ڈولنے لگتا ہے۔ یقین مانیے کچھ عرصے سے مجھے یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ہمارے ملک کا سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ ہمارا ایمان ہی ہے، سیاست ہے تو وہ ایمان کے نعروں کے ساتھ جڑی ہے، جہالت ہے تو وہ ایمان کے نام پہ پھیلائی جا رہی ہے، آمریت ہے تو وہ ایمان کے پردے میں جلوہ افروز ہے، طاقتور کی اطاعت ہے تو وہ بھی براہِ راست ہمارے ایمان سے منسوب کی جاتی ہے، تجارت ہے تو اُس میں بھی ایمان کی رنگ ہا رنگ قسموں پر سادہ لوحوں کو لوٹ لیاجاتا ہے، محبت ہو یا نفرت ہر چیز ایمان ماپ کر کی جاتی ہے۔ کوئی دن ہو، کوئی موقع ہو، کوئی تہوارہو، ہر چیز ہمارے لیے ایمان شکن ہوئے جاتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کسی بڑی سے بڑی شخصیت کا قد ماپنے کے لیے بھی بوزنے اور بالشتیے اپنے اپنے پست ایمانی پیمانے لیے دوڑے چلے آتے ہیں۔
مجھے لگتا ہے ہم بڑے ہی عجیب لوگ ہیں، آدابِ عشق و مروت سے قطعاَ لاعلم، اپنی حقیقی ثقافت سے روٹھے ہوئے روکھے لوگ، جو ہر اُس جھوٹی بات پر بھی آنکھیں بند کر کے یقین کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں جس سے ہمارے زنگ آلود ایمان کو ذرا سا بھی دھچکا لگنے کا خطرہ ہو۔ سچ جاننے اوراپنا ایمان ماپنے کی تگ تو بہت دور کی بات ہے ہم اپنے ہی فرمودہ بیانات اور فراہم کردہ معلومات پر فریقِ ثانی کا موقف تک سننے کے روادار نہیں ہوتے۔ منافقت، ہٹ دھرمی اور عدم برداشت سے بھرے ہم لوگ، اپنے متشدد اور متعصب رویوں کا چولا کبھی اتارتے ہی نہیں، اور نہ ہی کبھی یہ سوچتے ہیں کہ اَب اِن بوسیدہ چولوں اور بیمار رویوں سے جبر اور خون کی بو آتی ہے۔ ہم نام نہاد غیرت مند لوگ، مذہب کے نام پر قتل کرنے والوں کو تقدس کے ہار پہناتے ہیں، اُن کی شان میں قصائد پڑھتے ہیں۔ اُن کے شاندار مقبرے تعمیر کرتے ہیں اور اُن کی تکریم سے نہال ہوئے جاتے ہیں، اور جب ، وہ لوگ جو عمر بھر انسانیت کا بوجھ ڈھو کر رخصت ہوتے ہیں، تو اُن کو کفرو غداری کے فتووں اور الحاد کے نعروں تلے رخصت کرتے ہیں۔ زندہ لوگوں کو کبھی عزت نہ دینے والی قوم، لاشوں کی تکریم کے تمام آداب سے بھی قطعاَ ناواقف ٹھہرتی ہے۔ غالب نے شاید اسی لیے کہا تھا
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ سارا سال اپنا ایمان گروی رکھنے والی، جھوٹ، بد دیانتی، منافقت کو پروان چڑھانے والی ، لاشوں پہ سیاست کرنے والی، اپنے اثاثوں کے ضیاع پہ شکر بجا لانے والی، خواتین کو خوف زدہ اور معصوم بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے والی، نڈر اور بےباک قوم کو سال میں محض ایک دن یومِ حیا مبارک ہو۔
15فرووری 2018