ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
(فیصل آباد یونی ورسٹی میں 14 فروری کو عبایہ اور حجاب تقسیم کرکے لڑکیوں کو بہنیں بنانے کا فیصلہ)
تم مت کرنا آنکھیں نیچے، تم مت روکنا اپنی ہوس، تم مت قابو کرنا اپنی نفسانی خواہشات، تم مت بند کرنا مجھے دیکھ کے کھجانا، تم مت چھوڑنا اپنا تکیہ کلام ، ماں دی اور پیں دی، تم مت بند کرنا جنسی لطیفے سنانا اور سننا، تم مت چھوڑنا پورن فلمیں دیکھنا۔
تم جو ہر عورت کا ایک ہی مصرف جانتے ہو، ہر عورت جنسی آسودگی کا ذریعہ ہے، ہر لڑکی جو باہر نکلی ہے ریپ کے لائق ہے، کیوں وہ تمہاری مشکل سے دبائی ہوئی نفسانی خواہشات کو ابھار رہی ہے۔
اس میں تمہارا کیا قصور اگر تم فورا آپے سے باہر ہو جاتے ہو، تمہارا کیا قصور کہ تم عورت کو صروف جنسی استعمال کے قابل سمجھتے ہو، عورت کے جسمانی اعضا تمہاری مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں، تمہاری شہوت کسی بھی جانور کی طرح ہر وقت ہر جگہ آپے سے باہر ہے، اور یہ منحوس لڑکیاں نکل آتی ہیں باہر اپنے آپ کو سات پردوں میں چھپائے بغیر، اب نارمل کپڑے تو ناکافی ہیں نا کہ آخر لڑکی ہونے کا احساس ہوتا ہے۔
اگر نارمل کپڑوں کے رنگ چھپانے کے لئے عبایہ اور حجاب کا سہارا نہیں لیں گی تو ہماری بے راہ روی کی ذمے دار تو وہی ہوں گی نا کہ رنگ ہماری نازک طبع کو گراں گزرتے ہیں ہماری آنکھ تو بہکتی ہے اور بار بار بہکتی ہے۔
اور کیوں اپنی آنکھ پہ پہرے بٹھائیں، کیوں اتنا کشٹ کاٹیں، یہ ہمارا جہاں ہے ایک مرد بچے کا جہاں اور تمہارا تو مقصد حیات ہی مرد کی خدمت ہے تمہیں اس جہاں میں ہمارے لئے لایا گیا ہے اب یہ کیا کہ تم گھر سے تعلیم کے بہانے نکل کے ہمارا دل للچاؤ ہمارا ایمان خراب کرو، آخر مسلمان مرد کا ایمان ہے۔
اسی لئے تو تمہاری بہتری کے لئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ اگر تم کم عقل ہو اور تمہرے گھر کے مرد بے غیرت ہیں کہ تمہیں عبایہ اور حجاب کے بغیر یونی ورسٹی بھیج دیتے ہیں اور ہمیں آزمائش میں مبتلا کرتے ہیں تو کوئی بات نہیں، عورت تو سب کی سانجھی ذمہ داری ہوتی ہے، چلو ہم تمہیں دیتے ہیں عبایہ اور حجاب کا تحفہ، تاکہ ہمارا ایمان خطرے میں نہ پڑے اور تم بھی ریپ ہونے سے بچ جاؤ ۔
چلو شاباش، پہنو، ضد نہ کرو، تم نہیں جانتیں تمہارا لباس اگر چہ پورا ہے اور اگر چہ ہمیں تمہاراجسم ننگا نظر نہیں آتا مگر کیا کریں ہماری نظر بھی تو اب برمے جیسی ہے اور ہمیں تمہارے جسم کے خطوط کا ایکس رے بھی تو کرنا ہے اور نوٹس لینے دینے کے بہانے انگلیاں تم سے چھونی ہیں اور اس کے بعد ہمیں کس قیامت سے گزرنا ہے، تم کیا جانو ۔
اور میں کیوں یاد رکھوں کہ مجھے اپنی اس حس کو قابو میں رکھنا ہے۔ میں کیوں یاد رکھوں کہ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ میں کیوں یاد رکھوں کہ تمہارے کیا حقوق ہیں؟ میں کیوں یاد رکھوں کہ تمہیں زندہ دفن کرنے کی ممانعت کے بعد زندگی میں پوری طرح جینے کاحق دیا گیا تھا۔
تم کیا جانو کہ معاشرہ میری شہوت کو کیسے ہانکتا ہے۔ تم کیا جانو کہ جنس کا تذکرہ کیسے انڈیلا جاتا ہے بچپن سے ہی، تم کیا جانو یہ اس جادو کو سر پہ چڑھا کے فخر کرنے کا درس دیا جاتا ہے۔
تم کیا جانو کہ تم صرف کوڑا دان ہو، صرف کوڑا دان، مرد کی غلاظت سنبھالنے کے لئے اور اب جب تم یونی ورسٹی پہنچ ہی جاتی ہو معاشرے کی سنگلاخ حدود و قیود پار کر کے تو صرف لباس کافی نہیں یہاں ہمارے ساتھ پڑھنے کے لئے، پردے ڈالنے ہیں اپنے جسم پر اپنے خطوط چھپانے کے لئے۔
کیا کہا تم نے، تمہیں ماں بہن سمجھنے کے لئے ہم اپنا ذہن بدلیں اور عبایہ اور حجاب کا سہارا مت لیں۔ دیکھو اتنی مشکل باتیں نہ کرو۔ اب ذہن میں معلوم نہیں کون تمہیں بہن سمجھے گا، کون محبوبہ اور کون اگلے ریپ کا ٹارگٹ، اب ذہن میں جھانکنے کا کام تو مشکل ٹھہرا تو کون اتنی مشکلوں میں پڑے، سیدھا سیدھا تمہیں ہی پابند سلاسل کیوں نہ کیا جائے؟
اور تمہارا کہنا کہ مری تربیت کی جائے عورت کی عزت کے لئے، لو اور سنو، کون کرے گا میری تربیت اور کیسے کرے گا، میرا تو یہ جہان ہے، اور میں ہوں طاقت کا سر چشمہ، قبیلوں کا سردار، زمانے کو فتح کرنے والا، مجھے کسی تربیت کی ضرورت نہیں، میں کیوں تمہارا خیال کروں، مجھے تو یہ تربیت دے کے پروان چڑھایا گیا ہے کہ تم، تمہارے لب و رخسار سب میرے لئے ہیں، تمہارا وجود میری آسانیوں کے لئے ہے۔
اور ہاں یہ تمہیں عبایہ اور حجاب کا تحفہ دینے کا فیصلہ صرف ہم جوانوں کا نہیں، یونی ورسٹی کے بڑے بھی یہی چاہتے ہیں کیا ہوا اگر وہ زندگی کی شاہراہ کے آخر میں کھڑے ہیں، کیا ہوا جو ہاتھوں میں رعشہ آ چکا، کیا ہوا جو منہ میں بتیسی آ چکی، دل تو دھڑکتا ہے نا، خواہشات تو ابھی بھی باقی ہیں نا، جذبات تو ابھی بھی اچھل رہے ہیں۔
گو ہاتھ میں جنبش نہیں، آنکھ میں تو دم ہے
سو ان کو بھی آزمائش میں مت ڈالو، بے شک وہ ابا جان کی عمر کے ہی ٹھہرے پر ابا تو نہیں ہیں نا۔
سو ان کی، ہماری، تمہاری یا یوں کہیے کہ ہم سب کی بہتری اسی میں ہے کہ تم عبایہ اور حجاب اوڑھ لو اور ہم بھی کوشش کریں گے کہ تمہیں بہن سمجھ لیں۔
لگتا تو مشکل ہی ہے۔