وہ تو تمہیں تھے۔

سعدیہ احمد

آج پتہ نہیں کچھ لکھا بھی جائے گا یا نہیں۔ سیدھے لیٹ کر صرف گانے سنے جا سکتے ہیں یا دوستوں کے فون۔ وہ بھی زیادہ دیر نہیں کیونکہ سانس پھول جاتا ہے۔ تھکاوٹ ہو جاتی ہے۔ حالانکہ عجیب بات ہے۔ ساتواں دن ہونے کو ہے۔ پتہ نہیں امتحان ہے یا سازش۔ خیر خدا کی کرنی وہی جانے۔

داہنی ٹانگ پر چھالے ہیں۔ دونوں پیروں پر جلے کے نشان ہیں۔ ان میں بھی جلن تو ہوتی ہے لیکن دل کی جلن سے کم۔ ساتواں دن ہونے کو ہے۔ ہفتے کی شام کی بات ہے کہ مچھلی تلتے ہوئے ہمیں کوئی چکر سا آیا۔ اور سب ہم ہی پر الٹ گیا۔ خدا کا شکر ادا کیا کہ موٹی جینز پہنے ہوئے تھے۔ کچھ بچت ہو ہی گئی۔ بہت اونچا اونچا روئے۔ فورا امی کو آواز دی لیکن وہ تو وہاں تھیں ہی نہیں۔ کیسی امی ہیں یہ؟ سمندر پار کیوں ہیں؟ یہ کیا بات ہوئی؟

خیر جسم کے جلے کا علاج ہے۔ جو بن پایا کیا۔ سوموار کو پڑھنے بھی گئے۔ ڈھیلے والے کپڑے پہن لئے کہ ان چھالوں پر کپڑا نہ لگے۔ ہوا آر پار ہو۔ کھلی جوتی پہنی۔ انتظام تو پورا تھا نا۔ کلاس میں نئی دوستیاں کیں۔ ہنسے بولے۔ اگلی صبح اٹھنے میں دیر ہو گئی۔ کالج تک سیدھی ٹرین جاتی ہے اور ٹرین اسٹیشن گھر سے زیادہ دور نہیں۔ لہذا بھاگم بھاگ تقریبا وقت پر پہنچ گئے۔ کیا جانتے تھے کہ قسمت کو کیا منظور تھا۔ لوہے کی تیز سیڑھی پر پیر پھسلا اور ہم کہاں گئے ہم نہیں جانتے۔ بس اتنا یاد ہے کہ ہم بہت روئے۔ ایک بار پھر اونچا اونچا روئے۔ لگ رہا تھا کہ کہیں سے خون بہہ رہا ہے۔ کہیں درد ہو رہی ہے۔ کہیں کچھ جل رہا ہے۔ لیکن اس سے آگے نہیں معلوم۔ انجان ملک ہے لیکن انسان انجان نہیں تھے شاید۔

ہمارے گرد سب اکٹھے ہو گئے۔ کسی نے سہارا دے کر کھڑا کیا۔ کسی نے آنسو پونچھے۔ ابھی بھی ایک چینی خاتون کا جھریوں بھرا چہرہ یاد ہے جس نے ہمارا آنسوؤں بھرا چہرہ اپنے ہاتھ میں لیا تھا اور ٹرین اسٹیشن کے عملے کو رپورٹ کیا۔ ابتدائی طبی امداد ملی۔ خون بہنے سے کمزوری بھی ہو رہی تھی۔ درد بھی شروع ہو چکی تھی۔ لیکن اسپتال جانا ضروری تھا۔ یہاں بھی سیڑھیاں تھیں لیکن کیا کرتے۔ خیر مرہم پٹی کرائی۔ خدا جانے مرہم بھی درد کیوں دیتا ہے۔ پروفیسر صاحب کو فون کیا کہ آنے سے قاصر ہیں۔

وہ فاصلہ جو بظاہر چھے منٹ کا تھا ہم نے آدھے گھنٹے میں طے کیا۔ اور آ کر سیدھے بستر پر ڈھے گئے۔ زخم ٹھنڈے ہوئے تو درد بھی بڑھنے لگا۔ صحیح طرح چلنا تو درکنار لیٹے ہوئے کروٹ لینا بھی محال تھا۔ اسی لئے خواب آور دواوں اور درد کی گولیوں میں پناہ لی۔ اب کسی نہ کسی طرح چل تو لیتے ہیں لیکن چکر آ جاتا ہے۔ نظر بھی دھندلا آتا ہے۔ اور رونا تو ہر وقت آتا ہے۔ بہت کوشش کرتے ہیں کہ ہمت جوان رکھیں، ہنسیں مسکرائیں۔ لیکن کیوں؟ مانا کہ تھیٹر سے عشق ہے لیکن ہر وقت ماسک کیسے پہنیں اور کیوں پہنیں۔ بعض کردار طربیہ بھی تو ہوتے ہیں۔ ہم بھی یہی سمجھیں گے کہ رول بدل گیا۔ کہانی کے ایک ہی کردار کی شخصیت کی کئی پرتیں ہوتی ہیں نا۔ ہم سمجھیں گے کہ اب انٹرول کے بعد کی اسٹوری ہے۔

بقول فہمیدہ آپا کے
’وہ کوئی اور ہوں گے جو صبر سے دنیا سے رخصت ہوں گے۔ ہم تو خوب روئیں گے۔ ‘

ہم بھی بہادری کا ناٹک نہیں کرتے۔ کریں بھی کیوں؟ اگر درد خدا کی رضا ہے تو اس پر واویلہ مچانا ہماری منشا ہے۔ اچھا کرتے ہیں نا فہمیدہ آپا؟

کل ہماری پٹی بدلنی تھی۔ کھلی ہوا میں نکلے تو یاد آیا کہ آج تو ویلنٹائین ڈے ہے۔ ہر طرف لال رنگ عیاں تھا۔ فضا پھولوں سے مہک رہی تھی۔ وہ جوڑے جو شاید اگلے سال ایک دوسرے کو ملیں بھی نہ ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں مسکرا رہے تھے۔ یہاں محبت پر پابندی نہیں۔ اسے حیا کی آڑ میں برقعہ نہیں اوڑھایا جاتا۔ دل پر زور نہیں دیا جاتا۔ جو ہمارے لئے فحاشی ہے وہ ان کے لئے خوشی ہے۔ اور ہم پر خوشی حرام ہے۔ یہ کافر بھی عجیب لوگ ہیں۔

جیسے تیسے چکراتے گھر لوٹے اور اس دن کی طرح پھر بستر پر ڈھے گئے۔ امی بہت یاد آ رہی تھیں۔ پلکوں پر آنسو تو دھرے ہی رہتے ہیں۔ گھٹنے میں تکلیف بڑھ گئی تھی۔ ہمیں کروٹ بدلنی تھی کہ یک دم کچھ خیال آیا۔ تمام ہمت یکجا کر کے جوڑا بدلا۔ ہونٹوں پر لال سرخی جمائی۔ پلکوں کو سیاہ مسکارے سے لانبا کیا۔ گالوں کو غازے سے رنگا۔ کلائیوں پر خوشبو چھڑکی۔ بالوں کی دھیرے سے کنگھی کی۔ خود کو قد آور آئینے میں دیکھ کر مسکرائے۔

اپنے ہی کان میں خود سے محبت کا اقرار کیا۔ ایک بار پھر سے مسکرائے۔
دل ہی دل میں گنگنائے ’میری جاں مجھے جاں نہ کہو‘ ۔ زلفوں کو ایک ہلکا سا جھٹکا دیا اور تیسری بار مسکرائے۔
اس کے آگے کیا ہوا؟

کپڑے بدلے۔ کلینزر سے چہرہ رگڑا۔ اور بستر میں لیٹ گئے۔ چھت وہی تھی۔ سفید دیواریں وہی تھیں۔ بستر کی سرمئی چادر بھی وہی ملگجی سی تھی۔ لال پھولوں والے گہرے نیلے تکیے بھی اسی بے ترتیبی سے پڑے تھے۔ سائیڈ ٹیبل پر دوا کے پتے اور پانی کی بوتل بھی یونہی آڑے ترچھے دھرے تھے۔ وہی ڈھیلے ڈھالے کپڑے تھے۔ درد بھی وہی تھا۔ کروٹ میں ابھی بھی دقت تھی۔

لیکن اب آنسو نہیں بہہ رہے تھے۔ امی بھی یاد نہیں آ رہی تھیں۔
دستگیر پیر موری ارج سن چکے تھے۔ ہمارے ہی کان میں دھیرے سے سرگوشی کر چکے تھے۔

’تورے مندر میں جو نہیں آیا
وہ تو تمہیں تھے
وہ تو تمہیں تھے