ننھے منے تین سال کے معصوم بچے کو ماں نے مارا اور خوب ہی مارا۔ اس کا جرم کیا تھا؟ کیوں پھولوں جیسا بچہ اپنی سگی ماں کے ہاتھوں عتاب کا شکار ہوا؟ اپنے ہی پیٹ سے جنا بچہ اتنا بے وقعت کیسے ہوگیا کہ ماں شفقت اور محبت کا دامن چھوڑ کر زبان اور ہاتھ دونوں سے اس کا بدترین استحصال کرنے لگی۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ یہ آئے دن کی کہانی ہے۔ کبھی شوہر کی ڈانٹ سے خائف ہوکر بچے کو بری طرح دھنا جاتا ہے، کبھی ساس کا دل جلانے کے شوق میں معصوم کو تختہ مشق بنایا جاتا ہے، تو کبھی نندوں کی آمد پر بگڑنے والا مزاج بچے کے گال لال کرنے کے بعد بھی سنورتا نہیں۔
اس ظلم کا شکار ایک بچہ نہیں بلکہ پاکستان کا بوسیدہ ہوتا خاندانی نظام اور ٹوٹتے پھوٹتے رشتے ایسے بچوں سے معاشرے کی گود بھرتے جا رہے ہیں۔ مغرب پر لعن طعن کرنے اور انگلیاں اٹھانے والوں کو کب معلوم تھا کہ جلد ہی وہ دن آن پہنچے گا جب یہاں بھی بچے اپنے ہی والدین کے ہاتھوں گھروں میں غیرمحفوظ ہوجائیں گے۔ غیرذمہ دار والدین کے ہاتھوں بچوں پر تشدد کے واقعات تیزی سے بڑھنے کے باوجود اس موضوع پر بات کرنے سے لوگ کنی کتراتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ مذہب کے نام پر والدین کو سونپے جانے والے بے جا اختیارات نے انہیں بچوں کے معاملے میں ایسا دلیر بنا دیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ کوئی بھی ناروا سلوک روا رکھنے پر خود کا قابلِ سزا سمجھتے ہیں اور نہ کسی کے سامنے جواب دہ۔
سنتے آئے ہیں کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان صرف چیونٹیوں کا ہوتا ہے، بات تو سچ ہے لیکن ایسا صرف جنگلوں میں نہیں ہوتا۔ بعض لوگ انسانوں کے درمیان بھی جانور بننے میں وقت نہیں لگاتے۔ گھریلو جھگڑوں میں بچوں کو گھسیٹنے اور تشدد کرنے والوں کا تعلق بھی جانوروں کے ایسے ہی قبیلے سے ہے۔ اپنی غیرذمہ داری اور ناکامیوں کا ملبہ اولاد پر گرانا یا خانگی سیاست میں بچوں کو مہرہ بنانا وہ گھناؤنا فعل ہے جو والدین دھڑلے سے انجام دیتے ہیں اور آس پاس کے لوگ صرف تماشا دیکھتے ہیں۔ کوئی بپھرے ہوئے والدین کا ہاتھ روکنے کی جرأت نہیں کرتا اور نہ ہی ملکی سطح پر ایسے والدین کو سزا دینے کا کوئی قانون موجود ہے، کیوں کہ ہمارے معاشرے میں اولاد کو والدین کی پراپرٹی سمجھنے کا نظریہ عام ہے۔
گھریلو تشدد کا شکار پاکستان میں سیکڑوں نہیں ہزاروں بچے ہیں۔ عموماً باپ اپنی روزگار کی ٹینشن اور مائیں سسرالی چپقلشوں کا بدلہ بچوں سے چکانے میں ذرا تامل نہیں کرتیں، جس کی وجہ سے بچوں کا اپنے ہی گھر میں دم گُٓھٹنے لگا ہے۔ ہمارے بچوں کے لیے گھر سے باہر کی دنیا تو پہلے ہی ناسازگار بنائی جاچکی تھی، حالات اس نہج پر لائے گئے کہ بچے اپنے گلی محلوں اور میدانوں میں کھیل کود سے محروم ہوگئے، تعلیم اور شعور کی فراہمی کے نام پر انہیں بھاری بستوں میں جکڑ کر، بچپن، بے فکری اور مسکراہٹوں سے محروم کر کے ہائپر چائلڈز میں تبدیل کردیا گیا۔
پھر انہیں ایک ایسا خوف زدہ معاشرہ تحفے میں دیا جہاں وہ سہمے سہمے رہتے ہیں۔ قدم قدم پر کسی نہ کسی ”جاوید اقبال“ اور کسی نہ کسی ”عمران“ سے ٹکراتے ہیں۔ ہمارے بچے اس بدنصیب ملک سے تعلق رکھتے ہیں جہاں سالانہ ایک ہزار بچے ریپ یا اغوا ہو جاتے ہیں۔ ان افسوس ناک حالات میں ایک گھر ہی تو تھا جہاں یہ سکون سے کھیلتے اور بے فکری کی نیند سوتے تھے، لیکن افسوس والدین میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت ان بچوں سے گھروں کے اندر کا سکون بھی چھین چکی ہے۔
پاکستان کے معاشی نظام نے مرد کو روپے کمانے کی جس چکی میں پیسا ہے اس کے بعد ایک ماں ہی اولاد کی وہ واحد امید تھی جو اپنی اولاد کی اخلاقی، مذہبی اور تعلیمی مراحل کی نگراں سمجھی جاتی تھی، جس کے پاس بچوں کے لیے معیاری وقت اور بہت سارا پیار تھا۔ لیکن افسوس اب ایسی عورتوں کی کمی نہیں جو خودپرستی اور انا کی جنگ میں اس قدر اندھی ہوچکی ہیں کہ انہیں اپنی اولاد بھی غیراہم محسوس ہونے لگی ہے۔ انہیں بچے اپنی روٹین، نیند اور شوق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ لگتے ہیں۔ سو ان کے ہاتھوں اپنے ہی گلشن کے پھول مرجھا رہے ہیں۔
یہ معاملہ اتنا ہلکا نہیں کہ اس کو دیگر گھریلو معاملات کی طرح غیرحل شدہ چھوڑ دیا جائے۔ بچہ جنم تو ایک عورت کے بطن سے لیتا ہے، رگوں میں خون بھی ایک باپ کا ہوتا ہے، نسب بھی ایک ہی خاندان سے ملتا ہے لیکن یہ اثاثہ پوری قوم کا ہیں۔ ہر بچہ ایک پوری نسل ایک پورا عہد ہے۔ والدین اپنے حق اور مرتبے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بچوں پر تشدد کریں، ایک دوسرے کا خون جلانے کے لیے ملائم رخساروں پر تھپڑ برسائیں یا گھریلو سیاست کے مہرے شاطرانہ انداز سے چلنے کے لیے اپنی اولاد پر کم یا زیادہ جسمانی تشدد کریں، یہ فعل ہر حال میں ایک بدترین معاشرتی جرم ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے بچوں کو مکمل گھریلو تحفظ فراہم کرنے کے لیے قانونی سزا مقرر ہو۔ تشدد کے ذمہ دار والدین کے لیے جرمانے یا پھر قید کی سزائیں مقرر ہوں یا کم از کم ایسا نظام تشکیل پائے کہ ریاست ان بچوں کو اپنی تحویل میں لے کر ملک اور قوم کا مستقبل محفوظ بنائے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں تو پوری گنگا ہی الٹی بہتی ہے۔ سزا تو دور اس قبیح فعل کو معاشرتی جرم ہی تصور نہیں کیا جاتا۔ تحقیقات کے مطابق گھریلو تشدد کا شکار بچے سنگین ذہنی عوارض کا شکار ہوکر بیمار ہوجاتے ہیں اور ان کی قدرتی صلاحیتیں مکمل نشوونما حاصل نہیں کر پاتیں۔ یوں وہ ضدی اور بددماغ بن جاتے ہیں۔ سائنسی تحقیقات کی رو سے مزید یہ کہ ماؤں کے ہاتھوں تشدد سہنے والے بچے تعلیم کے میدان میں کبھی اچھی کارکردگی نہیں دکھا پاتے، جس کے نتیجے میں صرف ایک بچہ نہیں بلکہ ایک پوری نسل بے کار ہوکر رہ جاتی ہے۔
مشاہدہ کہتا ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے والی عورتیں اس جرم کی زیادہ مرتکب ہوتی ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو مشترکہ نظام میں ایسے بھی کوئی نگینے نہیں جڑے کہ اس سے چمٹے رہنے کے جنون میں نسلیں برباد کر لی جائیں۔ ازدواجی زندگی ایک نئے سفر کے آغاز کا نام ہے۔ اگر کسی بھی فریق کی خواہش ہے کہ نیا سفر نئی منزل سے شروع کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ شرط یہی ہے کہ ہر دوسری صورت میں بچوں کو مکمل گھریلو ماحول، تحفظ اور شفقت فراہم کی جائے، اگر ایسا نہیں تو پھر ساری خوشیاں بودی اور سب رشتے بے کار ہیں۔