منور حسین
کون اس بات پر متفق نہیں کہ ہمارے ملک میں باقاعدہ دو طرح کے قانون ہیں۔ خواہ ائین کی کسی کتاب میں ایسا نہیں لکھا، شراب عام ادمی کے لئے حرام ہے لیکن کلبوں فائیو سٹارز ہوٹلز میں نہیں۔ ایسے ہی جب ایلیٹ کلاس کو کچھ باقی سہولیات خود کو میسر ہوں تو عوام کا سوچنے کی فرصت کسے۔ شراب کو تو چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن ایک دوسرا ایشو دیکھتے ہیں۔ جو کہ نہ عیاشی ہے نہ کوئی مذہبی قدغن۔
اپ کسی ڈاکٹر سے تصدیق کر لیں شوگر؛ بلڈ پریشر کی ادویات کا استعمال؛ ذہنی اعصابی تناؤ مردانہ قوت پر کتنا برا اثر ڈالتے ہیں۔ اب تقریباً پوری دنیا میں اس مقصد کے لیے ادویات موجود ہیں۔ جو کہ بالکل ضرررساں نہیں ہیں۔ اگر ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق استعمال کیا جائے۔ ظاہر ہے بلاوجہ ڈاکٹر کی بات رد کرنے کا کوئی رسک کیوں لے گا۔ کچھ ممالک میں جیسے نیوزی لینڈ، متحدہ عرب امارات میں یہ ادویات اپ ڈسپرین کی طرح خرید سکتے ہیں۔ اب پاکستان میں بہت ایسی ادویات جو کہ پوری دنیا میں بند ہو چکی ہیں۔ ابھی تک استعمال ہو رہی ہیں۔ لیکن اس مقصد کے لیے بنائی گی ادویات کی پاکستان میں پابندی چہ معنی دارد۔ اب ادویات پر پابندی سے ایک تو یہ نقصان ہو رہا ہے کہ یا تو میڈیکل سٹور والا اپنی مرضی کی نکمی سی گولی سو پچاس میں بیچ دیتا ہے جو کہ اس کو ایک دو روپے میں آئی ہوتی ہے، دوسرا جو سمگل شدہ یا گھروں میں افیم وغیرہ سے بنائی گی مضر صحت گولی کسٹمر کو دے دیتا ہے جو کہ اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنسی خواہش فطری ہے، ضرورت ہے یا یہ کوئی عیاشی ہے؟ کیا یہ خواہش صرف مرد میں ہے یا قدرت نے عورت کے اندر بھی رکھی ہے۔ اب میڈیکل سائنس کا تو ایک ہی جواب ہو گا کہ یہ فطری بھی ہے اور دونوں کے اندر ہے۔
مرد اور عورت کو بچوں کے علاوہ جو دوسری ضرورت جوڑ کر رکھتی ہے وہ جنسی رشتہ ہے اور اس سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا اب حکیموں کے اشتہارات کس نے نہیں دیکھے جس کاروبار کی پبلسٹی ہوتی ہے اس کے گاہک بھی ہوتے ہیں۔ اب حکیم اپنے مریضوں کو کیا کھلا رہے ہیں۔ اس کا پتہ حکیموں کو بھی نہیں اب کتنے لوگوں کے گردے حکیموں کی وجہ سے فیل ہوتے ہیں۔ کتنے لوگوں کو فالج ہائی بلڈ پریشر دل کا دورہ عطائی کی دوائی سے پڑا۔ اس کے اعداد و شمار اس لیے جمع نہیں ہو سکتے کہ ظاہر ہے کوئی بھی فیملی کو اعتماد میں لے کر ایسی اویات استعمال نہیں کرتا۔
اگر باقاعدہ کمپنی کی بنی ہوئی تسلی بخش دوائی جس کے افیکٹ سائیڈ افیکٹ بھی پتہ ہوں جو کہ سب دوائیوں کے ہوتے ہیں۔ اور وہ ہوں بھی مقابلے کی فضا میں مناسب ریٹ پر تو شاید کتنی زندگیاں بچ سکتی ہیں۔ اور کتنے گھر اجڑنے سے بچ سکتے ہیں۔
شراب تو حرام ہے اور مضر صحت بھی پابندی سمجھ اتی ہے۔ لیکن ان ادویات پر پابندی کی وجہ؟
ووٹ دینے کا حق سب کا یکساں ہیں۔ کسی ٹیکنیکل ایشو پر رائے صرف اس شعبے کے ماہرین ہی دے سکتے ہیں۔ اپ میڈیکل سائنس کے لوگوں کو بلا لیں، ماہر نفسیات سماجیات حتیٰ کہ علمائے کرام کو بھی بلا لیں پھر اپ کو پتہ چل جائے گا۔ یہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے یا عیاشی۔
اللہ مجھے معاف کرے اگر میں غلط ہوں تو رسول کریم نے خود اپنے صحابہ کو پیاز کھانے کی تلقین کی کہ یہ مقوی باہ ہے۔ اب اگر مذہب بھی اس کے خلاف نہیں تو پھر جن لوگوں نے یہ پابندیاں لگائیں ان کے پاس کیا دلیل ہے؟ خود تو شادیوں پہ شادیاں سارا مقتدر طبقہ کیے جا رہا ہے اب میں تاریخ میں نہیں جاتا کہ کس کس کے گھر سے کس وقت ایسی ادویات برامد ہوئی اور کس کے بارے میں لوگ کیا بد گمانی رکھتے ہیں۔ مانا کہ عیاشی اپ کا ذاتی معاملہ ہے، جینے کا حق اور اپنی ضرورت پوری کرنے کا حق تو عام بندے کے پاس بھی رہنے دیں۔