سرکار آبادی کم کرنے کا مشورہ دینے کی کتنی بھی وجوہات پیش کرے لیکن میں یہ سمجھتی ہوں کہ آبادی اس لیے بھی کنٹرول کر لینی چاہیے تاکہ اس قوم کے بچوں کو مزید کنفیوز اور پریشان ہونے سے بچایا جا سکے۔ وہ زمانہ گیا جب کسی بچے سے پوچھا جاتا تھا کہ بیٹا کتنے بہن بھائی ہو؟ تو وہ جھٹ ان کی تعداد اور فر فر نام بھی گنوا دیا کرتا تھا۔ لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ دو چار سے زیادہ بہن بھائی ہوں تو اب بچے نہ صرف تعداد بتاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں بلکہ اکثر درست تعداد اور بہن بھائیوں کے نام تک بھول جاتے ہیں۔ آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں غلط بیانی کر رہی ہوں یا پھر کوئ…
انسان بظاہر جتنا مطمئن اور سرشار دکھائی دیتا ہے، کاش اتنا اصل میں بھی ہوتا۔ لیکن رونا کاہے کا! یہ انسان کی پھیلائی ہوئی غلاظت ہی تو ہے جس سے معاشرہ اس قدر سڑ چکا ہے کہ بس ذرا ہی جھانکنے کی کوشش میں تعفن سے دماغ پھٹنے اور سانس رُکنے لگتی ہے اور ہر بار مارے تاسف کے خود سے ہی نظریں ملانا دوبھر ہوجاتا ہے۔ میں بھی اکثر اس کیفیت سے دو چار ہوتی ہوں خاص طور پر جب اُس کی بپتا سنتی ہوں۔ شادی کے چودہ سالوں میں آئے نشیب و فراز اس کی زندگی کو کافی تبدیل کرگئے۔ لیکن اپنے شوہر کے لیے وہ پہلے دن سے آج تک محض ایک سیکس ورکر ہے۔ سیکس ورکر کا لفظ میں نے ط…
فرحین شیخ حقوق نسواں کا نعرہ یقیناً بہت خوش کن ہے۔ مولوی ازم کے بعد پاکستان میں ایک یہی منجن ہے جو خوب بکتا ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک میرا خیال تھا کہ یہ نعرہ، ہمارے دیہات، قصبوں اور اندرونِ شہر کی بے بس اور کچلی ہوئی عورتوں کو ان کے حقوق کا صحیح شعور اور ادراک عطا کرنے کی ایک مسلسل تحریک اور جدوجہد کا نام ہے، لیکن صنفی حقوق کے نام پر مغرب سے آنے والی وبائی مہم ”می ٹو“ کو یہاں جس طرح استعمال کیا جارہا ہے، اس نے شہر کی عورتوں کو بے خوفی اور بے جا دلیری کی اس سرحد تک پہنچا دیا ہے، جس کے بعد بات صنفی استحصال سے نکل کر صنفی انتقام تک جا پہنچی ہے۔ حقوق …
فرحین شیخ فر یہ پرانے دلی جیسی گلیاں نئی کراچی کی ہیں۔ ایسا نئی کراچی جس میں نیا کچھ بھی نہیں۔ یہاں مقیم آبادی گو کہ ملی جلی ہے لیکن اکثریت غربت کے چنگل میں جکڑے ہاتھ پاؤں مارنے والے لوگوں کی ہے۔ یہاں کارخانوں کی بہتات ہے۔ کہیں لیدرجیکٹیں بن رہی ہیں، کہیں پلاسٹک دانا، کہیں دھاگے، کہیں قالین کہیں کپڑے اور کہیں کچھ تو کہیں کچھ۔ رات کے پُرہول سناٹے میں سڑک پر اپنے قدموں کی چاپ کے علاوہ آپ کے کان واضح ایک اور آواز محسوس کرسکتے ہیں اور وہ ہے ان کارخانوں میں نصب بھاری مشینوں کی گڑ گڑ گڑ گڑ۔ میں اکثر سوچتی تھی کہ اتنی گنجان آبادی میں کارخانے لگانے ک…
فرحین شیخ ننھے منے تین سال کے معصوم بچے کو ماں نے مارا اور خوب ہی مارا۔ اس کا جرم کیا تھا؟ کیوں پھولوں جیسا بچہ اپنی سگی ماں کے ہاتھوں عتاب کا شکار ہوا؟ اپنے ہی پیٹ سے جنا بچہ اتنا بے وقعت کیسے ہوگیا کہ ماں شفقت اور محبت کا دامن چھوڑ کر زبان اور ہاتھ دونوں سے اس کا بدترین استحصال کرنے لگی۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ یہ آئے دن کی کہانی ہے۔ کبھی شوہر کی ڈانٹ سے خائف ہوکر بچے کو بری طرح دھنا جاتا ہے، کبھی ساس کا دل جلانے کے شوق میں معصوم کو تختہ مشق بنایا جاتا ہے، تو کبھی نندوں کی آمد پر بگڑنے والا مزاج بچے کے گال لال کرنے کے بعد بھی سنورتا نہیں…
فرحین شیخ ایمیلڈا کارٹیز کا تعلق ایل سلواڈور کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہے۔ سترہ سال کی عمر میں ایمیلڈا کو اس کے ستر سالہ سوتیلے باپ نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو گئی۔ کم عمری اور لاعلمی کی وجہ سے ایمیلڈا اپنے حمل سے یکسر بے خبر تھی۔ سو نہ وہ کسی اسپتال گئی اور نہ اس نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں کسی کو بتایا۔ ایک دن اچانک اس کے پیٹ میں شدید درد اٹھا او ر وقت سے پہلے ہی اپنے گھر کے واش روم میں ہی ایمیلڈا نے ایک بچی کو جنم دے دیا۔ بچی انتہائی غیر محفوظ طریقے سے پیدا ہونے کے بعد بھی محفوظ رہی لیکن…
فرحین شیخ انسانی حقوق پر پوری دنیا میں کیسی کیسی زوردار تقاریر ہوتی ہیں، بڑے بڑے وعدوں کے ساتھ بڑی بڑی نشستیں اختتام پذیر ہوتی ہیں۔ جبر وقہر کا دور مٹا دینے کو سارے ہی کرتا دھرتا پُرعزم اٹھتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اب دنیا کی کوئی سڑک، کوئی چوراہا اور کوئی بھی بازار انسانی حقوق کے شور سے نہیں تھرائے گا۔ کسی کوچے سے کوئی جلوس چیختا چلاتا نہیں گزرے گا، لیکن افسوس ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جب تک آدمی اس زمین پر موجود ہے، جذبۂ انسانیت ناپید ہی رہے گا۔ سارے وعدوں اور دعوؤں کا راگ الاپ کر بھی، انسانیت مردہ باد کا ایک ہی اصول لوگوں کی قسمت کا فیصل…
Social Plugin