انسان بظاہر جتنا مطمئن اور سرشار دکھائی دیتا ہے، کاش اتنا اصل میں بھی ہوتا۔ لیکن رونا کاہے کا! یہ انسان کی پھیلائی ہوئی غلاظت ہی تو ہے جس سے معاشرہ اس قدر سڑ چکا ہے کہ بس ذرا ہی جھانکنے کی کوشش میں تعفن سے دماغ پھٹنے اور سانس رُکنے لگتی ہے اور ہر بار مارے تاسف کے خود سے ہی نظریں ملانا دوبھر ہوجاتا ہے۔ میں بھی اکثر اس کیفیت سے دو چار ہوتی ہوں خاص طور پر جب اُس کی بپتا سنتی ہوں۔ شادی کے چودہ سالوں میں آئے نشیب و فراز اس کی زندگی کو کافی تبدیل کرگئے۔ لیکن اپنے شوہر کے لیے وہ پہلے دن سے آج تک محض ایک سیکس ورکر ہے۔
سیکس ورکر کا لفظ میں نے طنزاً استعمال نہیں کیا بلکہ ان دونوں کا تعلق درحقیقت ایک گاہک اور خریدار کا ہی ہے۔ اپنے شوہر کی جنسی ضروریات وہ ایک عام بیوی کی طرح ادا نہیں کرتی بلکہ پورن فلموں کے شوقین شوہر کے لیے وہ کسی ایسی ہی فلم کا ایک کردار نبھاتی ہے اور بدلے میں باقاعدہ معاوضہ بھی پاتی ہے۔ اس حقیقی فلم میں کام کرنے سے انکار کی صورت میں کئی بار‘ڈائریکٹر‘ شوہر نے اس کا معاوضہ روکا، یہاں تک کہ شدید پریشانی کے عالم میں اسے زیور بیچ کر ذاتی اور گھریلو اخراجات پورے کرنے پڑے، یوں تنگ دستی نے اس سے جلد ہی ہتھیار ڈلوا دیے۔
اپنی اس حیثیت پر لاکھ جھگڑ کر جب سوائے گالیوں کے کچھ نہ ملا تو اس زندگی کی عادت ڈالنی پڑی۔ رفتہ رفتہ شوہر سے زیادہ سے زیادہ معاوضے کے لیے بحث کرنے لگی۔ اب وہ اس ڈیلنگ میں اتنی ماہر ہو چکی ہے کہ اپنے نفع نقصان کا ایک ایک حساب رکھتی ہے۔ رقم اس کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتی تو وہ بھی خدمت میں ڈنڈی مارتی ہے اور جب منہ مانگا مل جائے تو وہ شوہر کو شکایت کا کوئی موقع نہیں دیتی۔ اکثر شوہر نے رات میں اسے ایک سیکس ورکر کی طرح معاوضہ دیا اور صبح بیوی سمجھ کر واپس لے لیا۔ بُھلا بیٹھا کہ بیوی تو اس نے اپنے ہاتھوں کہیں کھو دی ہے۔
یوں معاوضے کی واپسی کے لیے ہونے والی بحث ہمیشہ ایک بڑے جھگڑے میں بدلی۔ شوہر نے اس کو مار مار کر نیلوں نیل کیا اور اس نے بھی جواب میں ایسے کرارے زبانی اور عملی وار کیے جو بازاری عورتوں کا خاصہ ہیں۔ اس کاروباری تعلق کے علاوہ ان دونوں کے درمیان کچھ نہیں۔ نہ محبت، نہ خلوص، نہ وفا، نہ لباس اور جسم کا رشتہ اور اب تو شاید نفرت کا بھی نہیں۔ میں اس کے چہرے کو اکثر غور سے دیکھتی ہوں۔ اپنی آنکھوں کو پٹ پٹ جھپک کر نمی پلکوں میں چھپاتے ہوئے وہ منٹو کی بے بس طوائف لگتی ہے۔ خود کو مطمئن ظاہر کرتے ہوئے اکثر کہتی ہے کہ اپنے اور بچوں کے اخراجات کی رقم شوہر سے حاصل کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے تو پھر کیا کروں؟
میرے ہر اندیشے کا جواب ایک پھیکی مسکراہٹ کی صورت میں دیتی ہے۔ لیکن اندر کی بے چینی سگریٹ بن کر اس کی انگلیوں میں سلگتی ہے۔ کش پر کش لگاتی ہے۔ خود کو جلاتی ہے۔ دھویں میں زندگی اڑاتی ہے۔ خود کو بہت سستا بیچ کر بھی وہ اس حقیقت سے واقف ہے کہ اس کاروبار میں سوائے گھاٹے کے اس کے حصے میں کچھ نہ آسکا۔ یہ یقین اس کا اطمینان رخصت کرچکا ہے کہ شوہر کا گھر اور چاردیواری کا ساتھ تو بس جوانی تک ہے، ڈھلتی عمر میں سیکس ورکر کا فعال کردار نہ نبھا سکے گی تو کدھر جائے گی؟
جنس کے عین فطری تقاضوں کو انتہائی غیر فطری طریقے سے نبھانے کا نتیجہ ہے کہ ازدواجی زندگی کے چودہ سالوں کا تاج سر پر سجا کر بھی دونوں کے دل مل ہی نہ سکے۔ اُس کا شوہر اِس بات پر بھی سخت نالاں رہتا ہے کہ وہ اس کی عزت نہیں کرتی۔ یہ شکوہ سُن کر میرا اپنی ہنسی پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے۔ مجھے ہنستا دیکھ کروہ بھی اپنا غم بھول کر زور زور سے قہقہے لگاتی ہے۔ اس ہنسی سے ماحول کا تناؤ تو دور ہوجاتا ہے لیکن میں جانتی ہوں کہ یہ معاملہ ہنسی میں اڑانے والا نہیں بلکہ تیزی سے ابھرتا ایک سنجیدہ معاشرتی مسئلہ ہے۔
سنتے آئے ہیں کہ ایک مرد اپنی بیوی میں طوائفوں جیسی ادائیں ڈھونڈتا ہے۔ لیکن جانے اس جیسی کتنی عورتیں اپنے شوہروں کے لیے صرف ایک طوائف بن کر رہ گئی ہیں۔ پورن انڈسٹری نے دنیا کے ہر معاشرے میں پنجے گاڑ کر رشتوں کی حرمت ختم کردی ہے۔ ایک وہی نہیں بلکہ کتنی ہی عورتوں کی ازدواجی خوشیوں کو پورن فلمیں گھِن کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ کتنے ہی گھروں میں عمر بھر کا یہ خوب صورت ساتھ محض جنسی تعلق سے عبارت ہو کر رہ گیا ہے۔
اس سوچ نے نکاح میں آئی عورت کا پہلا اسٹیٹس ایک سیکس ورکر کا طے کردیا ہے، جس کے جذبات اور احساسات کی پروا کرنا مرد کے نزدیک ذرا اہم نہیں۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن میں دنیا کے بیشتر حصوں میں نافذ ان قوانین کو درست سمجھتی ہوں جن کے تحت نان نفقہ روک کر، دوسری شادی یا طلاق کی دھمکی دے کر شوہر کا اپنی بیوی کو جنسی تعلق کے لیے مجبور کرنا میریٹل ریپ قرار دیا گیا ہے۔ دنیا کا کوئی باشعور انسان اس حیوانیت کو جائز قرار کیسے دے سکتا ہے؟
میریٹل ریپ کے خلاف مغربی ممالک سالوں پہلے قانون سازی کر چکے ہیں۔ انڈیا میں یہ موضوع اس وقت پوری شدت سے زیربحث ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں اس پر بات کرنا گناہ عظیم ہے۔ بھلا کسی ایسے معاشرے میں اس موضوع کو چھیڑا بھی کیسے جاسکتا ہے جہاں اپنی رضا کے بغیر شوہر کو جنسی فعل سے روکنے والی عورت گناہ گار اور ملعون قرار دی جاتی ہے۔ نئے خاندان کا بننا کن ذمہ داریوں کا تقاضا کرتا ہے؟ رشتوں کی آب یاری کا جزولاینفک کون سے رویے ہوتے ہیں؟ ایک ساتھی کے ساتھ زندگی آگے بڑھانا کس تحمل اور بردباری کا متقاضی ہے؟ اس سے کسی کو غرض نہیں۔ محض جنسی ضروریات کی تکمیل کے لیے ہونے والی شادی کے نتائج کبھی دیرپا نہیں ہوتے۔ نکاح کے اصل مفہوم سے ناآشنائی کے باعث ذرا ذرا سی بات پر نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے۔
بیوی سے جان چھڑانا آج کل اتنا ہی آسان ہوگیا ہے جتنا کسی سیکس ورکر کو بدل لینا۔ انڈیا، پاکستان اور ان جیسے دیگر سطحی معاشروں میں ازدواجی زندگی ختم ہونے کے بعد عورتوں کے لیے زندگی ہی ختم سمجھی جاتی ہے، یوں وہ شوہروں کی ہر جائز اور ناجائز بات ماننے کے لیے مجبور کردی جاتی ہیں، گھر کے اندر اپنے ہی جیون ساتھی کے ہاتھوں تذلیل اور جنسی تشدد سہتی ہیں۔ زبان کھولنے میں شرماتی اور آواز اٹھانے میں ہچکچاتی ہیں۔ ان کو بچپن میں گھول کر پلایا ہوا بس ایک ہی سبق یاد ہوتا ہے کہ بچے پیروں کی زنجیر، طلاق گالی اور معاشرہ مردوں کی ملکیت ہے۔
اگر مردانہ سوچ یہی ہے تو جناب کیا کیجیے؟ ایسی تمام بے بس عورتوں سے یہی کہوں گی کہ زبان پیٹ میں اتار لیجیے۔ کم از کم اس وقت تک سینے میں دبی چنگاریوں کو آگ نہ بننے دیں جب تک قانون آپ کا پشت پناہ نہیں بن جاتا۔ ابھی وقت آپ کا نہیں۔ صبر کیجیے اور خاموشی سے بس یہ کام کرتی جائیے کہ معاشرے کے مردوں نے آپ کو بس اسی کے لیے منتخب کیا ہے۔