جیل سے آخری خط (انسانی حقوق کے عالمی دن۔ دس دسمبر۔ کے نام)

آج میری زندگی کا آخری دن ہے۔
کل صبحِ کاذب کے وقت مجھے سولی پر چڑھا دیا جائے گا۔
میرا قصور یہ ہے کہ مجھے ایک آمر نے ایک جابر نے غدار قرار دے دیا ہے۔
پچھلے چند دنوں میں مجھے اتنے زیادہ خطوط اور پیغام موصول ہوئے ہیں کہ میں ان کا علیحدہ علیحدہ جواب نہیں دے سکتا اس لیے جیل میں یہ آخری خط لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ جان کر حیرانی بھی ہوئی اور پریشانی بھی کہ خط لکھنے والے سب دوستوں اور خیر خواہوں نے مجھے یہ مشورہ دیا کہ میں آمر سے معافی مانگ لوں۔ وہ دوست نہیں چاہتے کہ میں سولی پر چڑھوں۔ وہ مجھے زندہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ میں غدار نہیں ہوں۔
میرے لیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں کس چیز کی معافی مانگوں؟
کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میں یہ اعتراف کروں کہ ساری عمر میرے جو خواب اور آدرش تھے وہ غلط تھے۔
میں نے زندگی میں جو بھی حرف لکھا وہ سچ لکھا۔ میری ہر تحریر میرے عوام کی امانت تھی۔
میں نے نہ کبھی دولت کے لیے لکھا نہ شہرت کے لیے لکھا۔
میں نے کبھی کسی جابر کسی آمر کسی حکومت کو خوش کرنے کے لیے نہیں لکھا۔
میں نے ہمیشہ اس عوام کے لیے لکھا جو ہر دور میں مظلوم ہوتی ہے محروم ہوتی ہے مجبور ہوتی ہے۔
میرا قصور یہ ہے کہ حکومت نے جب اپنی کامیابی اور ترقی کا جشن منایا تو
میں نے حکومت پر اعتراض کیا کہ
ایسا کیوں ہے کہ
ہماری عوام آج بھی تعلیم سے محروم ہے۔
ہمارے ملک کی شرح خواندگی بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جا رہی ہے۔
کیوبا جیسے چھوٹے سے غریب ملک میں شرح خواندگی نوے فیصد ہے۔
ایسا کیوں ہے کہ
ساری دنیا میں ہمارے بچے وہ واحد بچے ہیں جنہیں ان کی مادری زبان میں تعلیم نہیں دی جاتی۔
ایسا کیوں ہے کہ
ہماری عوام ہماری عورتیں ہماری اقلیتیں آج بھی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔
ایسا کیوں ہے کہ
ہماری قوم کے ادیب شاعر اور دانشور پابندِ سلاسل ہیں۔
اصحابِ بست و کشاد کو میری باتیں پسند نہ آئیں اور مجھے ایک غدار قرار دے دیا گیا۔
ہم سب جانتے ہیں۔
سیاسی رہنما آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔
سیاسی پارٹیاں پیدا ہوتی ہیں اور مر جاتی ہیں۔
حکومتیں بنتی ہیں اور تحلیل ہو جاتی ہیں۔
کرہِ ارض پر ملک بنتے ہیں اور ختم ہو جاتے ہیں اور پھر نئے ملک بنتے ہیں
لیکن عوام زندہ رہتے ہیں اور ان کے مسائل انتظار کرتے رہتے ہیں کہ ایسے سیاسی رہنما آئیں جو ان کا خیال رکھیں ان کے مسائل کو سنجیدگی سے سمجھیں او ان کے دکھوں کا مداوا کریں۔
میرے خطوں میں میرے ان دوستوں کے خطوط بھی شامل تھے جو میرے ساتھ یونیورسٹی میں آزادی کی تحریک کا حصہ تھے۔ وہ ادیب اور شاعر ’فنکار و دانشور میرے ہم خیال تھے۔ ان دنوں ہمارے خواب اور ہمارے آدرش مشترک تھے۔ ہم سب انقلاب کا خواب دیکھتے تھے۔ لیکن پھر کیا ہوا
چند انقلابیوں نے شادی کر لی اور اپنے خاندانی جھگڑوں میں الجھ گئے۔
چند انقلابیوں نے بڑے بڑے گھر بنائے اور انہیں بڑی بڑی کاریں خریدنے کی ہوس لے ڈوبی۔
چند انقلابیوں کو شہرت کے ناگ نے ڈس لیا اور وہ میڈیا کے بازار میں بک گئے۔
چند انقلابیوں نے سیاست کو چھوڑ کر مذہب میں پناہ ڈھونڈی اور اس دنیا کو تیاگ کر اگلی دنیا کی فکر شروع کر دی۔
ہر جابر ہر آمر ہر حکومت یہ بھول جاتی ہے کہ ایک دن وہ تاریخ کی عدالت میں پیش ہوں گے اور ان کے بچے ان کا حساب کریں گے احتساب کریں گے۔ ہر دور کے بچے اپنے والدین سے ایک قدم آگے ہوتے ہیں اور ان کی توقعات اور ان کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں۔ بہت سے بزرگ یہ نہیں جانتے کہ
؎ نئی کتاب مدلل جواب چاہیں گے
ہمارے بچے نیا اب نصاب چاہیں گے
حساب مانگیں گے اک دن وہ لمحے لمحے کا
ہمارے عہد کا وہ احتساب چاہیں گے
ان تمام خطوط میں صرف ایک خط ایک عورت دوست کا تھا جس نے مجھے جابر آمر اور حکومتِ وقت سے معافی مانگنے سے روکا تھا۔
اس نے جوش کا یہ قطعہ بھی بھیجا تھا
؎ سنو اے ساکنانِ خاکِ پستی
صدا یہ آ رہی ہے آسماں سے
کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر
غلامی کی حیاتِ جاوداں سے
اس نے کہا کہ بعض شخصیات اپنی موت سے بھی اپنے آدرش کی خدمت کرتی ہیں کیونکہ جب سچ کو قتل کیا جاتا ہے تو وہ امر ہو جاتا ہے۔
مجھے دھڑکا ہے تو اس بات کا کہ کہیں وہ میرے ساتھ اس خط کو بھی قتل نہ کر دیں اور آپ تک میرا یہ آخری محبت نامہ نہ پہنچے۔
اب میں سب دوستوں کی خدمت میں اپنے تین اشعار پیش کر کے اجازت چاہوں گا۔
رات تاریک ہوئی جاتی ہے
ایک مہتاب سلامت رکھنا
راستے تنگ ہوئے جاتے ہیں
دل میں اک باب سلامت رکھنا
وہ تمہیں دار پہ لے جائیں گے
آنکھ میں خواب سلامت رکھنا
دوستو!
میرا ایمان ہے کہ ایک دن یہ امن کے آشتی کے انسانی حقوق کے انسانی آزادی کے اور انسان دوستی کے خواب ضرور شرمندہِ تعبیر ہوں گے۔
؎ چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔