فرحین شیخ
ایمیلڈا کارٹیز کا تعلق ایل سلواڈور کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہے۔ سترہ سال کی عمر میں ایمیلڈا کو اس کے ستر سالہ سوتیلے باپ نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو گئی۔ کم عمری اور لاعلمی کی وجہ سے ایمیلڈا اپنے حمل سے یکسر بے خبر تھی۔ سو نہ وہ کسی اسپتال گئی اور نہ اس نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں کسی کو بتایا۔ ایک دن اچانک اس کے پیٹ میں شدید درد اٹھا او ر وقت سے پہلے ہی اپنے گھر کے واش روم میں ہی ایمیلڈا نے ایک بچی کو جنم دے دیا۔
بچی انتہائی غیر محفوظ طریقے سے پیدا ہونے کے بعد بھی محفوظ رہی لیکن ایمیلڈا کو جیل بھیج دیا گیا۔ ایمیلڈا کا شمار ایل سلواڈور کی ان سیکڑوں بد قسمت عورتوں میں ہوتا ہے جو اپنے ملک میں اسقاطِ حمل کے بدترین قانون کا بری طرح شکار بنی ہوئی ہیں۔ 1998 سے قبل ایل سلواڈور میں اسقاطِ حمل کی مشروط اجازت کا قانون موجود تھا۔ لیکن بعد میں ابارشن پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی۔ اس مجرمانہ قانون کی بدولت اس وقت ا یل سلواڈور کی جیلوں میں کتنی ہی بے گناہ عورتیں دس سے چالیس سال تک قید کی سزا بھگت رہی ہیں۔
ایمیلڈا کو یہ سزا بچی پیدا کرنے کے باوجود سنائی گئی کیوں کہ ایل سلواڈور کے نئے قانون کے مطابق چالیس ہفتوں کی مقررہ مدت سے قبل جو بھی عورت حمل سے فارغ ہو گی، چاہے اس نے اولاد کو جنم ہی کیوں نہ دیا ہو، وہ مجرم ہے۔ یوں ایمیلڈا کو اس شبہ کی بنیاد پر بیس سال کی سزا سنائی گئی کہ اس نے بچی کو قبل از وقت جنم دے کر مارنے کی کوشش کی ہے۔ اسپتال کے بیڈ پر ہی اسے ہتھکڑیوں میں جکڑ کر ایک غیر انسانی قانون کا شکار بنا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں جو اس ظالمانہ قانون پر پہلے ہی سراپا احتجاج تھیں، ایمیلڈا کے معاملے پر تو گویا صبر کے پیمانے لبریز ہو گئے اور صدائے احتجاج تیز تر ہوگئی۔ بد نصیب ایمیلڈا کے لیے پوری دنیا میں ہمدردی کی لہر پھیل گئی۔ ایمیلڈا جو بارہ سال کی عمر سے متواتر سوتیلے باپ کے ہاتھوں ریپ ہو کر نفسیاتی اور جسمانی عذاب سہہ رہی تھی، اس کو انصاف دینے اور تحفظ فراہم کرنے کے بجائے سزا سنا کر مزید ٹراما میں دھکیل دیا گیا۔
جلد ہی ایمیلڈا کا کیس ایل سیلواڈور میں اسقاطِ حمل کے قانون کی بھینٹ چڑھنے والا ایک بدترین کیس بن گیا۔ اٹھارہ ماہ کی قید بھگتنے کے بعد مختلف تنظیموں کی دن رات کی کوششوں سے ایمیلڈا اسی ہفتے جیل سے باہر تو آگئی ہے، لیکن ان صدمات سے شاید کبھی باہر نہ آسکے جو گھر سے لے کر ریاست تک، سب نے اس کو پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ جیل میں سترہ ماہ تک بے گناہ قید کاٹنے والی ایمیلڈا کو کوئی نفسیاتی علاج تک فراہم نہ کیا گیا اور نہ اسے اپنی بیٹی کو گود میں لینے کی اجازت دی گئی۔ ایل سلواڈور کی عدالتوں نے عالمی دباؤ، ابارشن کے ناکافی شواہد اور میڈیکل رپورٹوں کی بنیاد پر ایمیلڈا کو آزادی بخش دی لیکن اسقاطِ حمل پر مکمل پابندی کا مجرمانہ قانون اب بھی یہاں موجود ہے، جس کے خاتمے کی کوئی امید نہیں۔
دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں عورت کو لاحق کسی بھی خطرے کی بنیاد پر اسقاطِ حمل کی اجازت دی جاتی ہے، لیکن افسوس! اس وقت پوری دنیا میں ایسے چھبیس ممالک موجود ہیں، جہاں حمل ریپ کا نتیجہ ہو یا عورت کی جان خطرے میں ہی کیوں نہ ہو، حمل ضایع کروانا ہر صورت میں سنگین جرم شمار کیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں ہیٹی، کانگو، مصر، ایل سلواڈور، سینیگال، عراق، فلپائن، ہنڈورس، مالٹا اور دیگر کئی ممالک شامل ہیں۔ اس کے علاوہ برازیل، انڈونیشیا، میکسیکو، نائیجیریا اور یو اے ای سمیت سینتیس ممالک ایسے ہیں جہاں اسقاطِ حمل ایک جرم تو ہے لیکن صرف اس صورت میں اس کی اجازت ہے جب عورت کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو۔
تین یورپی ممالک سمیت چھتیس ممالک میں اسقاطِ حمل پر پابندی تو ہے لیکن وہ عورتوں کی جسمانی صحت کو زیادہ اہمیت دیتے ہوئے اسقاطِ حمل کی اجا زت بھی دیتے ہیں۔ نیوزی لینڈ، اسرائیل، کولمبیا، ملائیشیا اور تھائی لینڈ میں صرف عورت کی جسمانی صحت ہی نہیں بلکہ ذہنی صحت کے تحفظ کے لیے بھی اسقاطِ حمل کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی برطانیہ، انڈیا، فن لینڈ، جاپان اور تائیوان سمیت تیرہ ایسے ممالک بھی ہیں جہاں اسقاطِ حمل پر کوئی قدغن سرے سے عائد ہی نہیں۔
اسقاطِ حمل بے شک ایک خطرناک عمل ہے۔ پوری دنیا میں ہر سال تئیس ہزار عورتیں غیر محفوظ اسقاطِ حمل میں جان سے جاتی ہیں۔ پچھلے بیس سالوں میں پینتیس سے زیادہ ممالک میں اسقاطِ حمل کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کے اقدامات پر زور دیا ہے، لیکن تین ممالک ایسے بھی ہیں جہاں اس عرصے میں اسقاطِ حمل پر سختیاں اور پابندیاں مزید بڑھتی چلی گئیں۔ ان ہی میں سے ایک ایل سلواڈور بھی ہے، جہاں کسی جسمانی مسئلے یا حادثے کے نتیجے میں بھی حمل کا گرنا عورت کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں۔
2013 میں چھبیس ہفتوں کی ایک حاملہ عورت نے سپریم کورٹ میں گردوں کی شدید تکلیف کی وجہ سے ابارشن کی اجازت کی درخواست دائر کی لیکن اسے مسترد کر دیا گیا۔ ختی کہ یہاں پھیلنے والے زکا وائرس کے نتیجے میں یو این او نے اپیل بھی کی کہ ایل سلواڈور اپنے ابارشن لا زمیں کچھ نرمی لائے تاکہ عورتوں اور بچوں کی جانوں کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا جا سکے لیکن ساری اپیلیں بے کار گئیں۔ ایل سلواڈور کے محکمہ صحت نے حاملہ عورتوں کو مچھر دانیاں اور اسپرے فراہم کر نے کے ساتھ ساتھ ایک نصیحت کرنے پر اکتفا کیا کہ عورتیں حاملہ ہونے کے لیے دو سال کا انتظار کریں، اس وقت تک امید ہے ہ وائرس ختم ہو جائے گا۔
ایک خاص مچھر کے کاٹنے سے پھیلنے والا زکا وائرس نہ صرف حاملہ عورت کی جان کو خطرے میں ڈالتا ہے بلکہ اس کے پیٹ میں پلنے والے بچے کو بھی مختلف ایب نارملٹیز کا شکار کر دیتا ہے۔ ایل سلواڈور میں وائرس کا شکارحاملہ عورتیں دوہرے خوف کے سائے میں رہتی ہیں، یا تو ایب نارمل بچوں کو جنم دیں یا پھر اسقاط کروا کے ساری زندگی جیل میں گزاریں۔ 1998 میں اس قانون کو مزید سخت کرنے کے بعد ایل سلواڈور میں دو سو کے قریب عورتوں کو قیدکی لمبی سزائیں دی جا چکی ہیں۔ قانون کے تحت اسقاطِ حمل کا کوئی بھی کیس اسپتال آنے کی صورت میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹرز پولیس کو بلانے کے پابند ہیں۔
انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اس ایشو کو Las 17 گروپ کے تعاون سے دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہیں۔ Las 17 ان عورتوں کا گروپ ہے جن کو ابارشن کے جرم میں سزائیں دی گئیں اور ان کا کہنا ہے کہ ہم نے ایسے جرم کی سزا کاٹی جو ہم سے سرزد ہی نہیں ہوا۔ اس وقت بھی ایل سلواڈور کی جیلوں میں اچھی خاصی تعداد میں عورتیں اس قانون کے تحت سزا جھیل رہی ہیں۔ جنگی خطوں سے ہٹ کر ایل سلواڈور عورتوں کے لیے انتہائی خطرناک ملک بن چکا ہے۔
نصف سے زائد عورتیں کسی نہ کسی تشدد کا شکار ہیں۔ منشیات فروش گرووں کا لڑکیوں کو ریپ کرنا معمول بن چکا ہے۔ یہ دنیا کا عجیب ملک ہے، جہاں ریپ کرنے والے مرد کی سزا تو صرف پانچ سال جب کہ ریپ کے نتیجے میں ہونے والے حمل کو ضایع کروانے والی عورت کی سزا پچاس سال تک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریپ کا شکار حاملہ لڑکیوں میں خود کشی کی شرح یہاں تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ ایمیلڈا ان خوش نصیب چھے عورتوں میں سے ایک ہے جنہیں انسانی حقوق کی تنظیموں کے تعاون سے جیل میں سڑنے سے بچا لیا گیا ہے۔
لیکن ایمیلڈا جیسی کتنی ہی عورتیں اب بھی کسی مسیحا کے انتظار میں بے بسی کی قید کاٹ رہی ہیں۔ وہ جو اسقاطِ حمل کے نتیجے میں پہلے ہی اپنی اولاد کے غم میں مبتلا ہیں ان کو مزید سزا دینا آخر کہاں کا انصاف ہے؟ ایسے انسان دشمن قانون کے خلاف ایک نیا قانون بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ جنسی برتری اور زعم میں مبتلا مردانہ معاشرے کو اپنی حدود سے تجاوز کرنے سے روکنے کی ضرورت ہے، ورنہ عورتوں کے لیے زمین اس سے بھی زیادہ تنگ ہو جائے گی۔