میری بیٹی کا بوائے فرینڈ

ڈاکٹر لبنیٰ مرز
جب میں ‌ نے ”میں خود اپنی بیٹی کو بھگا دوں ‌ گی“ آرٹیکل لکھا تھا تو اس پر مجھے کئی پیغامات وصول ہوئے تھے۔ کچھ مثبت اور کچھ منفی۔ کچھ نے آرٹیکل پر تبصرہ کیا اور کچھ نے ذاتی حملے کرنے کی کوشش کی۔ سب سے سویٹ پیغام ایک باپ کا تھا جس نے لکھا کہ میں ‌ بھی اپنی بیٹی کو خود بھگا دوں ‌ گا۔ ایک انکل نے یہ پروپوزل بھیجا کہ میں ‌ آپ کی بیٹی کے ساتھ تعلقات استوار کرنا چاہتا ہوں ‌ لیکن شادی نہیں ‌ کرنا چاہتا۔
اس بارے میں ‌ آپ کا کیا خیال ہے؟ میرا اس ان ڈیسنٹ پروپوزل کے بارے میں ‌ یہ خیال ہے کہ تمام قارئین خود کو آج کی گلوبلائزڈ دنیا کے مختلف ممالک کے قوانین اور اخلاقیات سے آگاہ کریں۔ ایک بالغ مرد یا عورت کے مائنر لڑکے یا لڑکیوں ‌ کے ساتھ تعلقات بنانے کو سائکائٹری میں ‌ پیڈوفیلیا کی بیماری کہا جاتا ہے اور امریکی قانون کے مطابق اس کو اسٹیٹیوٹوری ریپ کہتے ہیں جس جرم پر پانچ سال سے لے کر عمر قید تک ہوسکتی ہے۔
بالغ آنٹیز اور انکلز کو اپنی عمر کے برابر ہی افراد کے ساتھ تعلقات بنانا مناسب ہوگا۔ آپ لوگ اپنے ملک کے قوانین اور ذاتی اخلاقیات کے مطابق آپس میں ‌ جو بھی سوشل کانٹریکٹ بنائیں وہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔ ایک مہذب معاشرہ جنسی جرائم کے شکار بچوں ‌ کو قتل نہیں کرتا بلکہ تمام جدید ٹیکنالوجی استعمال کرکے مجرم کو پکڑنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے اور اس کو سزا بھی دیتا ہے۔ ایک انصاف پسند معاشرہ ان مجرموں ‌ کی پردہ پوشی یا ہمت افزائی کے لیے کسی مذہب کے استعمال کی اجازت نہیں ‌ دیتا۔
جب میری بیٹی عائشہ اپنے ملک کے قوانین کے مطابق عاقل اور بالغ ہو تو اس کو اپنی زندگی سے متعلق ہر فیصلے کا پورا حق حاصل ہے۔ اس کے بعد والدین کا ان کے لیے فیصلے کرنے کا اختیار ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے ہم صرف یہ کرسکتے ہیں کہ ان کو زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ اور سمجھدار انسان بننے میں ‌ مدد دیں ‌ تاکہ وہ اپنے لیے بہتر فیصلے کرنے کے لائق ہوں اور کسی بھی معاشرے کے اچھے شہری بنیں اور اس کی ترقی نہ کہ تنزلی کا سبب ہوں۔ امید ہے کہ اس مضمون سے آپ کی معلومات میں ‌ اضافہ ہوگا اور آپ کو بھی ایک بہتر انسان بننے میں ‌ مدد ملے گی۔
ڈاکٹر سہیل کے ایڈریانا اور اس کے بوائے فرینڈ کے بارے میں ‌ آرٹیکل پر ایک صاحب نے ایک سوال پوچھا جو کہ کچھ یوں ‌ تھا، اگر آپ کی بیٹی کا بوائے فرینڈ اس کو حاملہ کرکے چھوڑ جائے تو آپ کیا کریں ‌ گے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جو ایک خوفزدہ ذہن سے ابھرتا ہے اور اس کی بنیاد سمجھنا ضروری ہے۔ زندگی دینا ایک عورت کی سب سے بڑی طاقت ہے جس کو پدرانہ نظام نے اس کی کمزوری میں ‌ بدل دیا گیا ہے۔ بیٹیوں کے والدین ہونے کی حیثیت سے ہم پر لازمی ہے کہ ہم اپنی بیٹیوں ‌ کو بائیولوجی کی تعلیم دیں تاکہ وہ خود کو بیماریوں اور ان چاہے حمل سے بچا سکیں۔
عصرہ نعمانی کو پاکستان میں ان کا پاکستانی بوائے فرینڈ شادی کا وعدہ کرکے حاملہ چھوڑ کر منظر سے غائب ہوگیا تھا۔ اس بوائے فرینڈ کو اور اس کی طرح‌ کے دیگر نوجوانوں ‌ کو اپنے گھروں ‌ یا اسکولوں ‌ میں ‌ یہ تعلیم نہیں مل رہی ہے کہ ایسی حرکت کو ریپ بائے ڈسیپشن کہتے ہیں جو کہ قانون کی نظر میں ‌ ایک جرم ہے۔ عصرہ نعمانی نے اس بچے شبلی نعمانی کو امریکہ میں ‌ ایک سنگل ماں ‌ کے طور پر پالا ہے جس میں ‌ ان کے والدین نے ان کی مدد کی۔
ہمیں ‌ اپنی بیٹیوں ‌ کو یہ بتا دینا ہوگا کہ لوگ محبت کے نام پر دھوکا بھی دے سکتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم جینا چھوڑ دیں۔ لڑکیوں ‌ کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے، تعلیم حاصل کرنے، دنیا دیکھنے اور اپنی زندگی میں ‌ خوش رہنے کا پورا حق حاصل ہے جس کے لیے ایک مہذب معاشرہ محفوظ ماحول تخلیق کرنے کا ذمہ دار ہے۔
جو پاکستانی خاندان یورپ اور امریکہ ہجرت کرچکے ہیں ‌ ان میں ‌ عجیب و غریب کیسز ہوئے ہیں۔ 2016 میں ‌ ایک پاکستانی امریکی ڈاکٹر نے اپنی تین سال سے بنی ہوئی گرل فرینڈ کی چائے میں‌ دوا ملا کر اس کے 17 ہفتے کے بچے کا اسقاط حمل کروا دیا تھا۔ اس جرم کی وجہ سے ان کو تین سال جیل ہوئی اور اب کہہ نہیں سکتے کہ کبھی میڈیکل لائسنس واپس مل پائے گا یا نہیں۔ ملک کے خراب معاشی حالات کی وجہ سے کافی لڑکے امیگریشن کے لیے نقلی شادیاں اور طلاق کی نیت کے ساتھ شادیاں ‌ کرتے بھی پائے گئے ہیں۔
کچھ کے پہلے سے بیوی بچے ہوتے ہیں جن کو وہ بیرونی ممالک میں ‌ قانونی حیثیت ملتے ہی دوسری شادیاں ختم کرکے لے آتے ہیں۔ ہم نے اور ہماری طرح‌ کے اور بھی بہت سارے خاندانوں نے اپنی بیٹیاں ‌ محنت سے پالی ہیں۔ دوسرے لوگوں ‌ اور ان کے خاندانوں کے معاشی حالات سدھارنا یا ان کی خدمت میں ‌ اپنی زندگی ختم کردینا ہماری بیٹیوں ‌ کی ذمہ داری نہیں ‌ ہے۔
اگر خوش قسمتی سے کوئی نارمل، پڑھا لکھا دیسی لڑکا مل بھی جائے تو ان کی مائیں ٹھیک ملنا مشکل ہے۔ میں ‌ شاباش دیتی ہوں ‌ اس باپ کو جس کی 15 سال کی لڑکی اس کو آ کر کہتی ہے کہ پڑوسی لڑکا مجھ سے شادی کرنے کے لیے کہہ رہا ہے۔ اس باپ نے اپنی بیٹی سے کہا کہ اس لڑکے سے کہو کہ اپنی ماں ‌ کو ہمارے گھر بھیجے اور تمہارا رشتہ مانگے۔ جب اس لڑکے نے اپنی ماں ‌ کو بھیجا تو انہوں ‌ نے آکر کہہ دیا کہ چکر ہمارے بیٹے جتنے چاہے چلا لیں، شادی ہم خود کریں ‌ گے اور تمہاری بیٹی ہمیں پسند نہیں ہے۔
دنیا میں ‌ مہذب انسان دوسرے انسانوں کو وہی عزت دیتے ہیں جو وہ خود اپنے لیے چاہتے ہوں۔ ہمارے ملک کے سارے بچے ہمارے اپنے بچوں ‌ کی طرح‌ ہی ہمیں ‌ پیارے ہونے چاہئیں۔ مہذب معاشرے بچوں ‌ کی عزت نفس کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کو ٹھوکر لگا کر ان کی شخصیت نہیں ‌ کچلتے ہیں۔ اسی طرح‌ طاقت ور اقوام دنیا میں ‌ ابھرتی ہیں۔
آج صبح سویرے مجھے میری بیٹی نے ایک سوال کا ٹیکسٹ بھیجا جس سے مجھے ایک دھچکا لگا تھا۔ میں ‌ اس سوال کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ‌ تھی۔ سوال یوں ‌ تھا، میری دوست کی امی ہسپتال میں داخل ہیں اور وہ بہت بیمار ہیں، ان کو گردے کی ضرورت ہے۔ کیا میں ‌ ان کو اپنا ایک گردہ دے دوں؟ میں ‌ نے اس کو کہا کہ 2017 میں ‌ برٹش میڈیکل جرنل میں ‌ ایک اسٹڈی چھپی تھی جس کے مطابق جو لوگ گردہ دیتے ہیں ‌، ان کی زندگی چھ ماہ سے ایک سال کم ہوجاتی ہے۔
اس کے علاوہ اس کی سرجری سے بھی انفکشن، خون کا زیاں یا بے ہوشی کی دوا سے موت کی طرح‌ کی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ اس لیے اس بات پر اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بہتر ہوگا کہ مرنے کے بعد اپنے گردے دیے جائیں۔ جن والدین کے اپنی اولاد کے ساتھ کھلے تعلقات نہیں ہوتے وہاں ‌ ان کو بعد میں ‌ یہ پتا چلتا ہے کہ آپ کا بچہ اپنا ایک گردہ کسی کو دے چکا ہے۔