حقوق نسواں کا نعرہ یقیناً بہت خوش کن ہے۔ مولوی ازم کے بعد پاکستان میں ایک یہی منجن ہے جو خوب بکتا ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک میرا خیال تھا کہ یہ نعرہ، ہمارے دیہات، قصبوں اور اندرونِ شہر کی بے بس اور کچلی ہوئی عورتوں کو ان کے حقوق کا صحیح شعور اور ادراک عطا کرنے کی ایک مسلسل تحریک اور جدوجہد کا نام ہے، لیکن صنفی حقوق کے نام پر مغرب سے آنے والی وبائی مہم ”می ٹو“ کو یہاں جس طرح استعمال کیا جارہا ہے، اس نے شہر کی عورتوں کو بے خوفی اور بے جا دلیری کی اس سرحد تک پہنچا دیا ہے، جس کے بعد بات صنفی استحصال سے نکل کر صنفی انتقام تک جا پہنچی ہے۔
حقوق نسواں کے نام پر برسوں سے چلنے والی بے شمار مہمات اور ان کا اخیر انجام دیکھنے کے بعد یہ کہنا ذرا مبالغہ نہیں کہ پس ماندہ طبقات کی حقیقی مظلوم خواتین کی زندگی میں کوئی قابل قدر تبدیلی آنا تو درکنار، یہ خوش نما نعرے بھی ان کے کانوں تک نہیں پہنچ سکے۔ وہ خوش نما نعرے جن کے نام پر کمانے والوں نے خوب کمایا اور لٹانے والوں نے خوب لٹایا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ یہ ساری مہمات مظلوم عورتوں کے نام پر تو اٹھائی جاتی ہیں لیکن حقیقتاً ان کے لیے ہوتی نہیں ہیں۔
ایک طرف تو عورت کا وہ روپ ہے، جو حوصلے، عزم، صبر اور جدوجہد کا پورا ایک باب ہے۔ اس قبیلے کی عورت مختاراں مائی کی شکل میں متواتر دو دہائیوں تک وقت کے کشکول میں انصاف مانگتی ہے، تو کبھی حق مانگنے پر تطہیر فاطمہ کی طرح دھتکار دی جاتی ہے اور کبھی سماج کے اصولوں سے بھِڑ جانے کی سزا کے طور پر سبین محمود اور قندیل بلوچ کی صورت بجھا دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ عورتوں کا ایک قبیلہ اور بھی ہے۔ اس قبیلے کی عورت کا روپ بہت بھیانک ہے۔
یہ اپنی نسوانیت کا تماشا آپ بناتی ہیں اور تھوڑے تھوڑے فائدوں کے لیے بڑے بڑے ہاتھوں میں بک جاتی ہیں۔ ان خواتین اور معاشرے کے شرپسند عناصر کی ملی بھگت سے اس وقت چاروں طرف انتقام کی ایک گھناؤنی فضا پیدا ہوگئی ہے، جس میں کردارکشی کو ایک بڑے مہرے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ زبان سے نکلے محض چند الفاظ آدمیت کا وقار لمحوں میں پامال کر کے زندگی بھر کا روگ بنتے جارہے ہیں۔ ان الزامات سے شخصی وقار منٹوں میں مسخ ہوجاتا ہے اور بے قصور ہونے کے باوجود ایک خاص فریم تاعمر فرد کا مقدر بن جاتا ہے۔ یہ وہ رسوائی ہے جس کی کوئی سنوائی نہیں اور اس کے بدلے گلے پڑنے والے معاشرتی رویوں اور مسائل کا کوئی حل ہے نہ اس سے نمٹنے کا کوئی قانون۔
بھلا ہو ٹیکنالوجی کا، جس نے واقعی سب کچھ بدل ڈالا۔ اب مخالف کو زیر کرنے کے روایتی طریقے بھی بودے ہوچکے ہیں۔ جدید دور ہے تو بھلا کیوں گریبان کھینچے جائیں اور خون سے ہاتھ رنگے جائیں؟ بس چند نسوانی آوازوں کو ملاکر اتنا شور کریں کہ لوگ صحیح اور غلط کی تمیز بھول کر ہاں میں ہاں ملانے لگیں۔ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کہنے لگیں۔ اس ٹیکنالوجی نے می ٹو کے نام پر عورت کی زبان سے ایسی دل خراش کہانیاں کہلوائیں کہ سننے والوں نے کان پکڑ لیے۔
بنا کسی تحقیق اور چھلنی کے آنے والی اطلاعات کے ہر بہاؤ کو بے دریغ قبول کیا جانے لگا۔ اسی ”افادیت“ کے پیش نظر مفادپرست طبقوں اور سیاسی جماعتوں اور ٹولوں نے بھی اس آڑ میں کھل کھیلنا شروع کردیا۔ جامعہ کراچی میں اساتذہ پر لگائے جانے والے حالیہ جنسی ہراسانی کے چیختے چنگھاڑتے الزامات کو وقت کی دھول نے اگرچہ مٹیالا کردیا لیکن تہذیب کے چہرے پر سیاہی لتھیڑتے چند کریہہ سوالات بار بار راستہ روک رہے ہیں۔ ان میں سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ تعلیم کی سطح جس رفتار سے بڑھتی ہے معاشرتی شعور اسی رفتار سے گھٹتا کیوں ہے؟
اگر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی اسی گھناؤنی سیاست کا راج ہے تو اپنے بچوں کو یہاں تک پہنچانے کا جنون مزدوروں کے ہاتھوں میں آبلے کیوں ڈالتا ہے؟ جنسی ہراسانی ایک بڑا معاشرتی جرم ہے لیکن بلاتفریق صنف اس کے خلاف قانون سازی کب کی جائے گی؟ مردوں کے وقار اور شخصیت کو آئے دن ان الزامات سے پراگندہ کرنے پر کیا انسانی حقوق کی تنظیمیں می ٹو کی طرز پر ”ہِم ٹو“ (Him too) مہم بھی شروع کریں گی؟