میرے وطن میں غریب کی قیمت سوا تین روپے فی درجن

فرحین شیخ
فر

یہ پرانے دلی جیسی گلیاں نئی کراچی کی ہیں۔ ایسا نئی کراچی جس میں نیا کچھ بھی نہیں۔ یہاں مقیم آبادی گو کہ ملی جلی ہے لیکن اکثریت غربت کے چنگل میں جکڑے ہاتھ پاؤں مارنے والے لوگوں کی ہے۔ یہاں کارخانوں کی بہتات ہے۔ کہیں لیدرجیکٹیں بن رہی ہیں، کہیں پلاسٹک دانا، کہیں دھاگے، کہیں قالین کہیں کپڑے اور کہیں کچھ تو کہیں کچھ۔ رات کے پُرہول سناٹے میں سڑک پر اپنے قدموں کی چاپ کے علاوہ آپ کے کان واضح ایک اور آواز محسوس کرسکتے ہیں اور وہ ہے ان کارخانوں میں نصب بھاری مشینوں کی گڑ گڑ گڑ گڑ۔

میں اکثر سوچتی تھی کہ اتنی گنجان آبادی میں کارخانے لگانے کی آخر وجہ کیا ہے؟ کارخانوں کے سیٹھ اتنے شورشرابے اور لوگوں کے درمیان اتنا بڑا کام کیسے کرلیتے ہیں، اور سب سے اہم بات یہ کہ اہلِ محلہ کیسے ان مشینوں کی گڑگڑاہٹ برداشت کر تے ہیں، کوئی شکایت درج کروا کے ان کارخانوں کو محلوں سے باہر کیوں نہیں منتقل کرواتا، لیکن نہ تو میرا کوئی کارخانہ، نہ وہاں کوئی گھر، سو سوچ بس سوچ بن کر رہ جاتی اور میں آگے بڑھ جاتی۔

کچھ دن قبل مجھے ایک خاتون ملیں۔ وہ کچھ عرصے سے شدید مالی مسائل کا شکار اور اپنے لیے گھر بیٹھے کسی کام کی تلاش میں تھیں۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ انہیں کام مل گیا ہے۔ نیو کراچی میں چلنے والے ایسے ہی ایک کارخانے کے سیٹھ نے انہیں لڑکیوں کی کڑھائی والی قمیصوں پر موتی لگانے کا کام دیا ہے۔ وہ مجھے قمیص اور موتی دکھاتے ہوئے طریقہ بتانے لگیں، میں حیرت سے ان کے ہاتھوں کو چلتا ہوا دیکھنے لگی۔ کام محنت اور وقت طلب تھا۔ لیکن اگر انہیں گھر بیٹھے آمدنی ہو رہی ہے تو محنت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ پھر جیسے جیسے وہ مجھے اس کام کے معاوضے کی تفصیلات بتاتی گئیں میرا سانس سینے میں اٹکنے لگا اور مجھے اپنے دیس کے استحصالی نظام پر الٹیاں ہونے لگیں، جہاں غریبوں کو بھی قومی وسائل کی طرح بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔

سیٹھ نے ان کا جو معاوضہ طے کیا ہے وہ ایک درجن یعنی پوری بارہ قمیصوں پر موتی لگانے کا صرف چالیس روپے ہے۔ معاوضہ سن کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ خاتون چار بچوں کی ماں اور گھر کے جملہ کاموں کی ذمہ دار بھی ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ سارے کام چھوڑ کر روزانہ ایک درجن قمیصیں نمٹا سکیں اور اگر بالفرض وہ روزانہ یہ تعداد پوری کر بھی لیتی ہیں تو چالیس روپے درجن کے حساب سے مہینے کے بارہ سو روپے بنتے ہیں۔ یعنی ایک قمیص پر محنت کرنے کے صرف سوا تین روپے۔ میں اپنے دماغ میں یہ بھیانک حساب جوڑ رہی تھی اور وہ خاتون سیٹھ کی تعریف میں رطب اللسان تھیں جو انہیں نہ صرف سوئی اور دھاگا تک فراہم کرے گا بلکہ گھر تک مال لانے لے جانے کا کام بھی وہ خود کرے گا۔

وہ خاتون تو اٹھ کر چلی گئیں لیکن میرے دماغ میں اب تک کارخانے کی مشینوں کی وہی گڑگڑاہٹ چل رہی ہے۔ سر درد سے پھٹ رہا ہے۔ کانوں میں ایک ملی نغمے کے بول بار بار گونج رہے ہیں ”ان ملوں مشینوں کے سب پہیے گھومیں گے، مزدور بھی ہوں گے شاد دہقان بھی جھومیں گے“ لیکن یہ کیا؟ یہاں مشینیں انسانیت کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ غریبوں کی مرمت کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔ مزدوروں کو شاد دیکھنا شاید ہر دیوانے شاعر کا حسین خواب ہے جس کی تعبیر بہت بھیانک ہے۔

یہ مشینیں اور کارخانے غریبوں کو کس طرح نہال کرتے ہیں، اس کا جیتا جاگتا ثبوت ایک غریب اور مجبور عورت کی شکل میں ابھی ابھی میرے سامنے سے اٹھ کر گیا ہے۔ سالوں پہلے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کی درد بھری تشفی ہو رہی ہے۔ کارخانے لگانے کے لیے غریبوں کی بستیوں سے بہتر جگہ بھلا اور کون سی ہو سکتی ہے؟ مزدوروں کا خون اور پسینہ ہی تو ان کا اصل ایندھن ہے۔ اگر آپ کے پاس پیسہ ہے اور آپ سیٹھ بننے کے جنون میں بھی مبتلا ہیں تو غریبوں سے بھرے کسی بھی محلے میں بلاجھجھک سرمایہ کاری کیجیے۔ یہاں شرم ناک حد تک معمولی معاوضے پر کام کرنے والی لیبر آسانی سے آپ کے ہاتھ لگ جائے گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان بچوں کی صورت میں فری لیبر بھی میسر آجائے گی جن کے والدین کی خواہش ہے کہ وہ چھوٹی سی عمر میں کوئی ہنر حاصل کرلیں تاکہ بھوکے نہ مریں۔

میرے دیس میں غریب ہونے سے بڑا جرم کوئی نہیں۔ مصیبت کے ماروں کا استحصال کرنے کے لیے سیاست دانوں سے لے کر سرمایہ داروں تک سب بھوکے بھیڑیوں کی طرح گھوم رہے ہیں۔ غربت کی تھاپ پر امیر محوِرقص ہیں۔ شکوہ کرو تو کہتے ہیں کہ کس نے کہا ہے ان غریبوں سے اپنا استحصال کروائیں۔ کم معاوضے پر کام کرنے سے انکار کیوں نہیں کردیتے؟ لیکن اس نصیحت سے آگے کوئی یہ نہیں بتاتا کہ ان کے پاس روٹی روزی کے حصول کا دوسرا طریقہ آخر ہے کون سا؟

اور کیا معاشرتی اور معاشی نظام کی سختیوں کو جھیلتے جھیلتے ان میں اب اتنا دم باقی بچا ہے کہ وہ کسی سیٹھ کے آگے کوئی جائز مطالبہ رکھ سکیں۔ صرف کراچی ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے چھوٹے اور غریب علاقوں میں ظلم اور ستم کی یہ داستانیں عام ہیں، لیکن یہ مجھے اور آپ کو سنائی نہیں دیں گی، کیوں کہ ہم میں سے ہر ایک کے اندر کہیں نہ کہیں ایک سیٹھ چھپا بیٹھا ہے۔ سو سر جھٹکیے اور کام میں لگ جائیے۔ یہ ہمارا دردِسر نہیں۔