ثمینہ انصاری
چند دن پہلے 13 فروری کو ریڈیو کا عالمی دن منایا گیا۔ ’ریڈیو شاید کسی کو یاد بھی نہ ہو‘ ایسا کہنا غلط ہے۔ ریڈیو پاکستان میڈیم ویو 630 اب بھی اپنی تاب کے ساتھ سنا جا رہا ہے۔ مجھے براڈکاسٹنگ کا تجربہ صرف ریڈیو پاکستان سے حاصل نہیں ہوا۔ میں اس سے پہلے سن رائز ایونیو کے ساتھ منسلک رہی۔ تین سال ریڈیو جہلم کے ساتھ منسلک رہنے سے مجھے مائیک کے جو اصول معلوم ہوئے شاید وہ اصول اب تک ریڈیو پاکستان کے براڈکاسٹنگ سنٹر میں نہیں بتائے گئے۔
میرا مقصد معیار کے متعلق بات کرنا نہیں۔ ایک بڑی تعداد اب بھی سامعین کی موجود ہے جو ریڈیو ڈرامہ سے محظوظ ہوتی ہے، جنہیں ریڈیو ان کے بچپن میں لے جاتا ہے جہاں وہ گاؤں کے کھیت کھلیان یاد کرتے ہیں۔ اور اسی زندگی کو بہترین سمجھتے ہیں کیونکہ اس زندگی میں ذمہ داریاں نہیں تھیں۔ اس زندگی میں قلقاریاں تھیں۔ ماں باپ سے روٹھنا منانا اور روتے ہوئے اپنی پسندیدہ شے کا مل جانا تھا۔ اور پسند بھی کیا کرنا ہوا کرتا تھا۔ وہی کوکیز اور بسکٹ اور ٹافیاں جنہیں آج دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ریڈیو پر پاکستان اور انڈیا میچز کی کمنٹری سبھی کو یاد ہے۔ نا صرف کمنٹری بلکہ بہت سی آوازیں۔ نام شاید ذہنوں سے محو ہو چکے ہوں گے لیکن وہ آوازیں آج بھی کہیں سن لی جائیں تو روح معطر ہو جایا کرتی ہے۔
ایک صاحب سے نیرنگ گیلری میں ملاقات ہوئی۔ ان کا تعلق ایف بی آر سے ہے۔ سلام دعا کے بعد ریڈیو سے متعلق گفتگو کرتے کرتے ان صاحب نے بتایا کے انہیں ریڈیو سیٹ جمع کرنے کا شوق ہے۔ میں نے کلیکشن دیکھنے کا اظہار تو کیا لیکن ڈرتے ڈرتے۔ دیکھتے ہیں کہ ان صاحب کی کلیکشن کب نیرنگ گیلری میں دکھائی جائے یا کہیں ان کی جمع پونجی کو جگہ مل جائے تو چھوٹا سا میوزیم ترتیب دیا جا سکتا ہے۔
ریڈیو پاکستان ہو یا کوئی اور براڈکاسٹنگ گروپ، تمام کا مقصد آواز کے ذریعے عوام کو سستی تفریح فراہم کرنا نیز ملکی حالات سے آگاہ رکھنا ہے۔ اسی مقصد کے لیے خبروں کے ساتھ ساتھ موسیقی کے پروگرامز ترتیب دیے جاتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ موسیقی کے ساتھ ساتھ ڈرامہ پر مبنی پروگرامز بھی ہونے چاہئیں۔ ریڈیو آواز کی دنیا ہے۔ اور انسان کسی بھی جنس سے تعلق رکھتا ہو کسی بھی قومیت کا ہو آواز کی دنیا میں قبولیت ہے۔ اور شاید کچھ پیسے کمانے کا ذریعہ بھی ہو سکتا ہے اگر صحیح منصوبہ بندی کی جائے۔
تھیٹر کی معاشرے میں اپنی جگہ ہے جیسا کہ اسٹریٹ تھیٹر اور دیگر وغیرہ لیکن ریڈیو بھی اپنا مقام رکھتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے، اسلام آباد اسٹیشن سے جنیفر اور سرمد خان کو لوگ اس لیے سنا کرتے تھے کہ سرمد خان کے پروگرام میں آپ اپنا دُکھ، خوشی، غصہ اور کوئی بھی احساس بیان کر سکتے ہیں۔ جنیفر کے پروگرام کی زبان انگریزی جبکہ سرمد خان کے پروگرام کی بنیادی زبان تو اردو رہی ہے لیکن لوگوں کو سہولت دی جاتی ہے کہ وہ جس زبان کو آسان سمجھیں اسی میں اپنا مدعا بیان کریں۔
کچھ اسی قسم کے پروگرام لاہور کے مختلف اسٹیشن بھی کر رہے ہیں۔ نہ صرف ریڈیو بلکہ میڈیا کے ہر میڈیم کی اپنی اہمیت ہے۔ کسی زمانے میں ریڈیو کو شیطانی ڈبہ کہا جاتا تھا۔ لیکن جلد ہی اس شیطانی ڈبے کی جگہ ٹیلی ویژن نے لی اور کافی دیر تک یہ اسی ٹائٹل کے ساتھ آہستہ آہستہ اپنی جگہ بناتا رہا۔ انٹرنیٹ نے ٹیلی ویژن کو قریب قریب ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہہ سکتے ہیں یہ کسی نئے ارتقاء کی تیاری ہے۔
اب کچھ باتیں 13 فروری سے اگلے ہی دن کی، یعنی 14 فروری کی۔ کچھ دوستوں نے اسے ویلنٹائن ڈے کے طور پر منایا تو کچھ نے سسٹرز ڈے۔ کچھ نے حیا کا دن تو کئیوں نے ایڈز اور ایچ آئی وی اوئیرنیس کا دن منایا۔ جنہوں نے ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے پھولوں اور محبت کا تبادلہ کیا ان کے لیے تو بھرپور تالیاں اور دعائیں۔ جنہوں نے محبت کرنے والوں کوگالیوں سے نوازہ اور اس ایک دن کو بے حیائی کے نام کیا ان کو بھی سلا م لیکن جنہوں نے اس دن کو ایڈز اور ایچ آئی وی اوئیرنیس AIDS/HIV Awareness کے دن کے طور پر منایا ان میں میرا بھی شمار کیا جا سکتا ہے۔
ہوا یوں کے محبت تو ہم روزانہ ہی پھیلاتے ہیں، پھول جب دل آئے دے دلا لیتے ہیں۔ دل کی شکلوں کو میں اپنی پینٹنگز میں استعمال کر رہی ہوں تو فی الحال وہ کسی کو دینے نہ دینے کا سوال ہی نہیں۔ تو رہی بات ایچ آئی وی سے متعلق شعوری مہم کی تو دھنک نام کی ایک این جی او نے الحمراء کلچر کمپلیکس میں ایک کھیل سجایا۔ جس کے لکھاری علی عثمان باجوہ تھے۔ ڈائریکٹر علی عثمان باجوہ اور عامر فراز تھے۔ کھیل کا عنوان ’مثبت‘ تھا۔
اور کھیل رچانے کی اچھی کوشش کی گئی، جسے سراہا جانا چاہیے۔ میں نے کھیل دیکھا اور اس کھیل سے محظوظ ہوئی۔ اور اسی کھیل سے معلوم ہوا کہ پاکستان کے ہر دوسرے گاؤں میں وہ شیر خوار بچے بھی ہیں جن میں ایچ آئی وی سکریننگ کی گئی تو معلوم ہوا کہ پازیٹو ہیں۔ نیز ایک گاؤں کی سکرینگ کا نتیجہ یہ تھا کہ 200 افراد ایچ آئی وی پازیٹو تھے۔ ایچ آئی وی پازیٹو کو جنسی تعلقات میں بے راروی کو وجہ سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ یہ حقیقت نہیں۔
خیر دُکھ سُکھ زندگی کا حصہ ہیں تو محبت کرتے رہنا چاہیے۔ زندہ رہنے کے لیے ضروری عمل ہے اور کسی ایک دن اگر اسے منا لیا جائے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ جو نہیں منانا چاہتے نہ منائیں۔ آپ کا تو ہر دن ہی اچھا ہے تو بھیا آپ کی مرضی۔ کون زور زبردستی کرتا ہے۔ لیکن جو منا رہے ہیں انہیں منانے دیا جانا چاہیے۔ مکالمہ جاری رہنا چاہیے۔ یہ معاشرے کا حسن ہے اور حسن سلامت رہے۔ ہمیں اور کیا چاہیے؟