سابق جنرل کی سوچ ہر طرف پھیلتی نظر آ رہی ہے۔
نہ کہیں ماتمی جلسہ، نہ کوئی یادگاری ٹکٹ، نہ کسی بڑے چوک پر اس کا بت، نہ کسی پارٹی جھنڈے پر اُس کی تصویر، نہ اُسکے مزار پر پرستاروں کا ہجوم، نہ کسی کو یہ معلوم کہ مزار کے نیچے کیا دفن ہے۔ نہ کسی سیاسی جماعت کے منشور میں اُسکے فرمودات، نہ ہر لحظ اُٹھتے سیاسی ہنگاموں میں اسکی بات۔ نہ بڑے لوگوں کے ڈرائنگ روموں میں اُسکے ساتھ کھنچوائی ہوئی کوئی تصویر، نہ کسی کتب خانے میں اُسکے کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کوئی تحریر۔ نہ کوئی سیاستدان چھاتی پر ہاتھ مار کر کہتا ہے میں اسکا مشن پورا کروں گا۔ نہ کوئی دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے کہ مولا ہمیں ایک ایسا ہی نجات دہندہ اور دے۔
اگر یہ بچوں کی کہانی ہوتی تو ہم یہاں پر کہہ سکتے تھے کہ پس ثابت ہوا کہ ظلم کو دوام نہیں، ظالم کو کوئی اچھے لفظوں میں یاد نہیں رکھتا اپنے آپکو خدا سمجھنے والے ریت کے بت ہوتے ہیں۔ تاریخ سب سے بڑی منصف ہے اور اُسکی کی سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ وہ آپ کا نام نشان مٹا دیتی ہے۔ دیکھو، دیکھو کیا عبرت کا نشان ہے کہ جس شخص نے پوری قوم کو ٹکٹکی پر لٹکایا۔ آئین کو کاغذ کا چیتھڑا بتایا، عوامی لیڈروں کو سولی پر لٹکایا، باقی سیاستدانوں کو اپنے در کا کتا قرار دیا، جو اپنے لوگوں کو غلام بنا کر افغانستان، بھارتی پنجاب اور کشمیر کو آزاد کرانے چلا جس نے اپنی طمع کو اللہ کا قانون قرار دیا اور اللہ کے قانون کو گلی گلی بدنام کیا۔ آج اس کا نام بھی بھلا دیا گیا۔
اس کے دسترخوان سے فیض یاب ہونے والے بھی اُسکے ذکر پر یوں منہ بناتے ہیں جیسے نوالے میں کوئی حرام چیز آگئی ہو۔
ضیاء کسی انسان کا نام ہوتا تو شاید ہم بھول گئے ہوتے، لیکن وہ ایک سوچ کا نام تھا، فکر کا نام تھا۔ یا یوں کہیے ایک وبا کا نام تھا جو ہمارے خون میں سراعیت کر گئی اور ہمیں پتہ بھی نہ چلا۔
جب بھی کبھی ’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘ کا نعرہ سنتا ہوں تو جی چاہتا ہے کہ ان دیوانوں کو سمجھاؤں کہ نہیں بھٹو پھانسی پر جھول گیا آؤ تمہیں دکھاتا ہوں کہ کون زندہ ہے۔ دیکھوں تمھاری سڑکوں، چوکوں پر، تمہاری ریڈیائی لہروں پر، تمہارے موبائل فون کی رِنگ ٹون میں، جدھر دیکھو، جدھر سنو، ضیاء زندہ ہے۔
وہ زندہ ہے ہمارے بچوں کو پڑھائی جانے والی کتابوں میں، ان کو سنائی جانے والی لوریوں میں، ہمارے آئین میں، قانون میں، اس قانون کی حفاظت کرنے والوں کے ضمیر میں، اس قانون کو اللہ کا قانون بنانے کا وعدہ کرنے والے کے دماغ میں۔ وہ زندہ ہے مسجدوں میں پھٹنے والے سرفروش نوجوانوں کے دلوں میں، وہ زندہ ہے ٹی وی کے ڈراموں میں، ٹی وی ٹاک شو کے میزبانوں میں، ہمارے حلق سے نکلی جعلی عربی آوازوں میں، وہ زندہ ہے حجابوں میں، نقابوں میں، ہیروئین کی دولت سے بنے محلوں میں، لگثرری عمروں میں، حرام کو حلال کرتے بینک اکاؤنٹوں میں۔
وہ زندہ ہے شادی پہ چلائی جانے والی کلاشنکوف کی آواز میں، وہ چھپا ہے ہر اُس چوک پہ جہاں ستر سالہ بڑھیا بھیک مانگتی ہے اور آپکو حاجی صاحب کہہ کر پکارتی ہے۔ وہ زندہ ہے ہر اس پولیس والے کے سوال میں جب وہ کہتا ہے نکاح نامہ کہاں ہے۔ وہ اپنا خراج مانگتا ہے جب کہتا ہے کہ دوسروں کو کافر قرار نہیں دوگے تو شناختی کارڈ نہیں ملے گا۔
وہ زندہ ہے اور آسیہ بی بی کی کال کوٹھڑی کا پہرے دار ہے۔ وہ ہر احمدی، ہر شیعہ، ہر ہندو، ہر عیسائی کے سر پہ لٹکی تلوار ہے۔ (ان میں مزار پر دھمال ڈالنے والوں، یارسول اللہ کہنے والوں یا ننگے سر نماز پڑھنے والوں کو بھی شامل کریں)۔
وہ زندہ ہے ہمارے سیاسی ڈھانچے میں، ہماری چادر اور چار دیواری میں، ہمارے احتساب میں، ہمارے مثبت نتائج میں، ہمارے نظام مصطفیٰ کی تلاش میں، ہمارے امتِ مسلمہ کے خواب میں، وہ زندہ ہے ہمارے ہر عذاب میں۔
جب احمد پور شرقیہ کے چنی گوٹھ چوک پر ہزاروں لوگ اکھٹے ہوتے ہیں اور ایک ملنگ پر تیل چھڑکنا شروع کرتے ہیں تو وہ اس ہجوم میں شامل ہر شخص کے دل میں زندہ ہے۔ جب ملنگ کو آگ لگائی جاتی ہے اور وہ چیختا ہے تو لوگوں کی سفاکانہ خاموشی میں سے یہی آواز آتی ہے۔ دیکھو میں زندہ ہوں۔
5 جولائی 2012