سوشل میڈیا اور خواتین: ’مجھے آن لائن ریپ اور قتل کی دھمکیاں ملتی ہیں۔۔۔ مگر یہ سب روکا کیوں نہیں جا سکتا؟‘

  • ماریانہ سپرنگ
  • سپیشیلسٹ ڈس انفارمیشن رپورٹر، بی بی سی نیوز


انتباہ: اس رپورٹ میں سخت الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔

میں بی بی سی کی پہلی سپیشیلسٹ ڈس انفارمیشن رپورٹر ہوں اور مجھے روزانہ سوشل میڈیا پر توہین آمیز پیغامات موصول ہوتے ہیں۔ اکثر تو اتنے گندے یا گالم گلوچ سے بھرپور ہوتے ہیں کہ وہ اُن کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جا سکتی۔ اس کا محرک کیا ہے۔۔۔ آن لائن سازشوں اور فیک نیوز کے اثرات کے متعلق میری رپورٹنگ۔

میں سوالات اور تنقید کے لیے تیار ہوں، لیکن عورتوں کے حوالے سے نفرت کا جو رویہ میرے خلاف استعمال ہوتا ہے اب وہ ایک معمول بن گیا ہے۔

ان پیغامات میں میری جنس کے حوالے سے گندی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ ریپ، سر قلم کرنے اور جنسی عوامل کے متعلق اشارے کیے جاتے ہیں۔ کچھ میں سازشی نظریے ملا کے پیش کیے جاتے ہیں، جیسے میں صہیونی کنٹرول میں ہوں، یا میں خود چھوٹے بچوں کو ریپ کرنے کی ذمہ دار ہوں۔ غلیظ گالیوں کا لگاتار استعمال کیا جاتا ہے۔

لیکن یہ صرف میرے متعلق ہی نہیں ہے۔ دنیا بھر کے سیاستدانوں سے لے کر پروگرام ’لو آئی لینڈ‘ کے ستاروں اور فرنٹ لائن ڈاکٹروں کے متعلق میں سُنتی ہوں کہ خواتین کے ساتھ اسی قسم کی نفرت کا سلوک کیا جاتا ہے۔ ایک نئی تحقیق جو بی بی سی کے ساتھ شیئر کی گئی ہے بتاتی ہے کہ خواتین کو مردوں کی نسبت اسی طرح کے رویے کا زیادہ سامنا رہتا ہے، اور یہ صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ بری ہوتی جا رہی ہے، اور اس میں اب نسل پرستی اور ہوموفوبیا بھی شامل ہو گیا ہے۔

میں یہ جاننا چاہتی تھی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے، اس سے کیا خطرہ ہے اور سوشل میڈیا سائٹس، پولیس اور حکومت کیوں اس کے متعلق زیادہ کچھ نہیں کر رہے۔ لہذا میں نے اس پر بی بی سی پینوراما کے لیے ایک فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔

ہم نے پانچ مشہور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایک جعلی ٹرولز کا اکاؤنٹ قائم کیا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ وہ کس طرح ایسے صارفین میں خواتین کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں۔ اے آئی (مصنوئی ذہانت) سے تیار کردہ تصویر کا استعمال کرتے ہوئے ہم نے اپنے جعلی ٹرولز کو ان لوگوں کی طرح ڈیزائن کیا جو مجھے گالم گلوچ کرتے تھے۔ ہمارا ٹرول سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے مجوزہ مواد کے ساتھ مصروف رہتا تھا لیکن وہ کوئی نفرت بھرا پیغام نہیں بھیجتا تھا۔

پروگرام کے ایک حصے کے طور پر، تھنک ٹینک ڈیموز نے ریئلٹی ٹی وی کے مقابلوں میں حصہ لینے والوں کو موصول ہونے والے زیادتی بھرے پیغامات کے بارے میں ایک وسیع تحقیق کی اور 90 ہزار سے زیادہ پوسٹس اور تبصروں کا تجزیہ لیا۔

یہ شاید شروع کرنے کے لیے ایک حیران کن جگہ تھی، لیکن ’لو آئی لینڈ‘ جیسے پروگرام معاشرے کے لیے تقریباً ایک مائیکروکوزم (عالم صغیر) کے طور پر کام کرتے ہیں، جن سے محققین مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے مردوں اور عورتوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کا موازنہ کر سکتے ہیں۔ ان کی مقبولیت بھی بہت زیادہ آن لائن بات چیت میں دلچسپی پیدا کرتی ہے۔

Love Island contestants 2021

،تصویر کا ذریعہITV

،تصویر کا کیپشن

سنہ 2021 کے پروگرام ’لو آئی لینڈ‘ کے شرکا

ہم نے دریافت کیا:

  • ہمارے ٹرول اکاؤنٹ کو فیس بک، انسٹاگرام نے زیادہ سے زیادہ خواتین مخالف مواد کی سفارش کی تھی، جن میں سے کچھ جنسی تشدد سے متعلق تھا
  • خواتین ریئلٹی ٹی وی کے شرکا کو، جن میں اس سال لو آئی لینڈ میں شامل ہونے والے بھی شامل تھے، سوشل میڈیا پر غیر متناسب طور پر نشانہ بنایا گیا، جس میں اکثر گفتگو خواتین کے خلاف نازیبا الفاظ کے استعمال کی بنیاد پر ہوتی ہے اور اس میں نسل پرستی کی آمیزش بھی ہوتی
  • اقوام متحدہ کی جانب سے سوشل میڈیا کمپنیوں کو خواتین کے بہتر تحفظ کے لیے تجاویز کا مسودہ خصوصی طور پر بی بی سی کے ساتھ شیئر بھی کیا گیا

گالیاں دینے والے اکاؤنٹس کو ہاتھ نہیں لگایا گیا

سوشل میڈیا کی کمپنیاں کہتی ہیں کہ وہ خواتین کے خلاف آن لائن نفرت کو سنجیدگی سے لیتی ہیں اور ان کے پاس صارفین کو گالم گلوچ سے بچانے کے قوانین ہیں۔ ان میں نفرت کے پیغامات بھیجنے والے اکاؤنٹس کو معطل کرنا، انھیں محدود کرنا یا بند کرنا بھی شامل ہے۔

لیکن میرا تجربہ بتاتا ہے کہ وہ اکثر ایسا نہیں کرتے۔ میں نے فیس بک کو اب تک مجھے موصول ہونے والے کچھ بدترین پیغامات کی اطلاع بھی دی، جن میں میرے گھر آ کر مجھے ریپ کرنے اور خوفناک جنسی فعل کی دھمکیاں بھی شامل تھیں۔ لیکن کئی مہینوں بعد وہ اکاؤنٹ فیس بک پر تھا، اور اس کے ساتھ درجنوں دیگر انسٹاگرام اور ٹویٹر اکاؤنٹس بھی جو مجھے گالیاں بھیجتے تھے۔

پھر پتہ چلا کہ میرا تجربہ ایک تسلسل کا حصہ ہے۔ ’سینٹر فار کاؤنٹرنگ ڈیجیٹل ہیٹ‘ کی جانب سے کی گئی نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح ٹویٹر اور انسٹاگرام پر خواتین کے خلاف نفرت بھرے پیغامات بھیجنے والے 330 اکاؤنٹس میں سے 97 فیصد شکایت کرنے کے بعد بھی سائٹ پر موجود تھے۔

ٹوئٹر اور انسٹاگرام کہتے ہیں کہ جب ان کے قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو وہ کارروائی کرتے ہیں، اور اکاؤنٹس بند کرنا ہی واحد چارہ نہیں ہے۔

ٹرولز کا شکار

اس بارے میں تجسس کے ساتھ کہ کون مجھے اور دوسری عورتوں کو نفرت بھرے پیغامات بھیج رہا ہے میں نے گالی گلوچ کرنے والے پروفائلز کو دیکھنا شروع کیا۔ ان میں سے زیادہ تر مرد تھے اور برطانیہ میں مقیم تھے۔ مجھے ’خبطی گائے‘ کہنے اور یہ بتانے کہ مجھے سیکس کی ضرورت ہے، سے لے کر مجھے ڈھونڈ کر پرتشدد یا جنسی حملہ کرنے کی دھمکیوں تک، وہ میرے متعلق بار بار صنفی بنیادوں پر گندی زبان استعمال کرتے رہے۔

یہ بھی پتہ چلا کہ وہ حقیقی لوگ ہیں بوٹس نہیں۔ ایک میری طرح ’سپرس‘ کلب کا پرستار ہے۔ دوسرے کو ویگن کھانا پکانا پسند ہے۔ ایک، جس کا اکاؤنٹ گمنام تھا، اس نے تو ڈیلیوری سروس ’اوکاڈو‘ کے متعلق ٹویٹ کر کے اپنا مقام تک بتا دیا۔

میں نے ان سے رابطہ کیا اور سٹیو نامی ایک شخص، جو کہ 60 سالہ وین ڈرائیور تھا، میرے ساتھ فون پر بات کرنے پر راضی ہو گیا۔ اس نے مجھے جو پیغامات بھیجے تھے وہ اتنے زیادہ برے نہیں تھے جتنے برے مجھے آن لائن بھیجے جاتے ہیں اور ان میں سے اکثر صنفی بنیادوں پر گالیاں ہی ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

بہت سارے اکاؤنٹ ہولڈرز کی طرح جنھوں نے مجھے نفرت آمیز پیغامات بھیجے تھے، وہ بھی آن لائن سازشی نظریات میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ لیکن دوسروں کی طرح، انھوں نے مجھے جو نفرت بھرے پیغامات بھیجے، ان میں مجھ پر عورت ہونے کی وجہ سے حملے کیے گئے۔ پہلے تو انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ پیغامات اتنے برے تھے، لیکن میں نے انھیں بتایا کہ یہ میرے ان باکس میں نفرت بھرے بہت سے پیغامات میں سے صرف چند ایک ہیں۔

آخر کار اس نے کہا کہ ’شاید میں نے غلطی کی تھی۔ میں تو کافی اچھا آدمی ہوں۔‘

اس نے کہا کہ دراصل اسے بھی آن لائن پر ان لوگوں کی طرف سے نفرت بھرے پیغامات آتے ہیں ’جو عالمی حدت پر یقین رکھتے ہیں اور یہ کہ 9/11 ہوا تھا۔‘ وہ ان سازشی نظریات کا جواب دے رہے ہوتے ہیں جو وہ سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں۔ مجھے امید تھی کہ شاید اس سے انھیں یہ سمجھنے میں مدد ملے کہ نفرت کا اظہار اس طرح کی چیزوں کا جواب نہیں ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ ہماری گفتگو کے اختتام تک وہ اس طرف کچھ کچھ آ رہے تھے۔

Marianna Spring
،تصویر کا کیپشن

ماریانہ ان لوگوں کے متعلق مزید جاننے کی کوشش میں رہیں جو نفرت بھرے پیغامات بھیجتے ہیں

ہماری گفتگو نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ میرے ٹرولز اپنے سوشل میڈیا فیڈز پر کیا دیکھ رہے ہوں گے۔ میں یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ کیا سوشل میڈیا الگورتھم خواتین کے ساتھ نفرت کا اظہار کرنے والے اکاؤنٹس کی طرف نفرت کا مزید مواد بھیج رہے ہیں۔ چنانچہ میں نے بیری نامی ایک جعلی آن لائن پروفائل بنائی اور اسے برطانیہ کے پانچ مشہور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سائن کیا۔

تمام اہم سوشل میڈیا کمپنیاں کہتی ہیں کہ وہ اپنے پلیٹ فارم پر نفرت کو فروغ نہیں دیتیں اور اسے روکنے کے لیے کارروائی کرتی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس الگورتھمز ہیں جو ہمیں ماضی میں شائع کردہ، پسند کی ہوئیں یا دیکھی ہوئی چیزوں پر مبنی مواد پیش کرتے ہیں۔ لیکن یہ جاننا مشکل ہے کہ وہ ہر صارف کو کیا بھیجتے ہیں۔

سوشل میڈیا کی ماہر کلو کولیور کہتی ہیں کہ ’ایسا کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ خود ہی ایک پروفائل بنایا جائے اور ایک بار جب آپ کچھ گروپس یا صفحات کو فالو کرنا شروع کر دیں تو یہ دیکھیں کہ پلیٹ فارم خود ہی آپ کو کہاں لے جاتا ہے۔‘

کولیور انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹجک ڈائیلاگ کے لیے کام کرتی ہیں اور سوشل میڈیا پر انتہا پسندی اور غلط معلومات کو دیکھتی ہیں۔ انھوں نے اس سے پہلے بھی صحافیوں کی مدد کی ہے اور اخلاقی اور حقیقت پسندانہ طریقے سے پروفائلز ترتیب کرنے میں بھی میری مدد کی۔

بیری کے اکاؤنٹس ان متعدد اکاؤنٹس پر مبنی تھے جو مجھے برے پیغامات بھیجتے تھے۔ میرے ٹرولز کی طرح، بیری بھی بنیادی طور پر اینٹی ویکس مواد اور سازشی نظریات میں دلچسپی رکھتے تھے اور تھوڑا بہت خواتین مخالف مواد کو بھی دیکھتے تھے۔ انھوں نے اپنے پروفائل پر کچھ گالیاں بھی پوسٹ کیں تاکہ الگورتھم کو شروع سے ہی یہ چل جائے کہ ان کے اکاؤنٹ سے خواتین کے بارے میں گالیوں کا استعمال کیا گیا تھا۔ لیکن میرے ٹرولز کے برعکس اس اکاؤنٹ نے کسی بھی خاتون کو براہ راست پیغام نہیں بھیجا۔

دو ہفتوں تک میں نے ہر دو تین دن کے بعد لاگ اِن کیا اور سفارشات پر عمل کیا، بیری کے پروفائلز پر پوسٹ کیا، پوسٹس کو پسند کیا اور ویڈیوز کو دیکھا۔

صرف ایک ہفتے کے بعد فیس بک اور انسٹاگرام دونوں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فالو کرنے کے لیے جن صفحات کو تجویز کیا گیا تھا وہ تقریباً سبھی خواتین کے خلاف نفرت پھیلانے والے تھے۔ اس تجربے کے اختتام تک بیری کو یہ سائٹس زیادہ سے زیادہ خواتین مخالف مواد بھیج چکی تھیں، جو کہ اکاؤنٹ بنانے سے لے کر اب تک ایک ڈرامائی اضافہ تھا۔ اس میں سے کچھ مواد جنسی تشدد سے متعلق تھا، جنسی عوامل کے بارے میں پریشان کن میمز شیئر کی گئی تھیں، اور ایسا مواد شائع کیا گیا تھا جو ریپ، ہراساں کرنے اورصنفی تشدد کی ترغیب دیتا تھا۔

انھوں نے انتہائی نظریات کا حوالہ بھی دیا۔ اس میں ’انسل تحریک بھی شامل تھی، یہ وہ انٹرنیٹ سب کلچر ہے جو مردوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے مسائل کا ذمہ دار خواتین کو ٹھہرائیں۔ یہ تشدد کی کئی کارروائیوں سے جڑا ہوا ہے، جن میں برطانیہ کے شہر پلیمتھ میں حالیہ فائرنگ کے واقعات بھی شامل ہیں۔‘

کولیور کہتی ہیں کہ ’اگر یہ (بیری) کوئی حقیقی شخص ہوتا تو اسے بہت جلد ایک نفرت بھری کمیونٹی میں لایا جاتا جو خواتین کے خلاف نفرت کے مواد سے بھری ہوئی ہوتی، صرف دو ہفتوں کے اندر۔‘

بیری کی خواتین مخالف مواد تک رسائی کو روکنے کی بجائے ایسا لگتا ہے کہ فیس بک اور انسٹاگرام نے اسے فروغ دیا۔ اس کے برعکس ٹک ٹاک پر خواتین مخالف مواد نہیں تھا اور ٹویٹر پر بھی بہت ہی کم۔ یوٹیوب نے خواتین کے خلاف کچھ ویڈیوز ضرور تجویز کی تھیں۔

فیس بک جو کہ انسٹاگرام کی بھی مالک ہے، کا کہنا ہے کہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ ایسے مواد کی تشہیر نہ کریں جو ان کے قواعد کو توڑتا ہے اور وہ اپنی ٹیکنالوجی کو بہتر بنا رہے ہیں تاکہ نفرت والے مواد کو زیادہ تیزی سے تلاش اور ہٹایا جا سکے۔

یوٹیوب کا کہنا ہے کہ اس کی نفرت والے مواد کے متعلق ’سخت پالیسیاں‘ ہیں اور وہ ’جلد‘ ہی ایسے مواد کو ہٹا دیتے ہیں جو ان کے قوانین کو توڑتا ہے۔

تجربے میں صرف یہ ہی واحد چیز نہیں تھی جس نے مجھے حیران کیا۔ بیری کی بنیادی دلچسپی اصل میں سازشی نظریات میں تھی اور میں توقع کر رہی تھی کہ اس پر شروع ہی سے اس قسم کے مواد کی بھرمار ہو جائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔

ویکسین اور وبائی مرض کے بارے میں گمراہ کن معلومات کو فروغ نہ دینے کے لیے سوشل میڈیا سائٹس پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ لیکن فیس بک اور انسٹاگرام پر خواتین کے خلاف نفرت کے مواد کے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہوا؟

دنیا بھر میں تقریباً تین ارب لوگ فیس بک کا استعمال کرتے ہیں اور پچھلے سال اس نے فی صارف اشتہارات کی آمدنی میں اوسطاً 32 ڈالر کمایا تھا۔ جتنا زیادہ لوگ پلیٹ فارم پر رہیں گے یہ اتنے زیادہ اشتہارات چلائے گا اور اتنا زیادہ ہی پیسہ کمائے گا۔

فیس بک کا کہنا ہے کہ اس کے لیے اپنی ’کمیونٹی‘ کو تحفظ فراہم کرنا منافع کمانے سے زیادہ اہم ہے۔

اور ہمارے فیس بک کو لکھنے کے بعد اس نے اپنی سائٹوں پر صحافیوں، سیاستدانوں اور مشہور شخصیات کو نشانہ بنانے والے جنسی نفرت والے مواد سے نمٹنے کے لیے نئے اقدامات کا اعلان کیا۔

line
Kaz Kamwi - Love Island contestant and Instagram star

،تصویر کا ذریعہADRIAN POLGLASE/BBC

،تصویر کا کیپشن

کاز کاموی ۔ لو آئیلینڈ میں شرکت کرنے انسٹاگرام کی سٹار

لو آئی لینڈ: ’عورت کو غیر متناسب طور پر نشانہ بنایا گیا‘

پینوراما پروگرام کے لیے تھنک ٹینک ’ڈیموز‘ کے محققین نے لو آئی لینڈ (آئی ٹی وی) اور ’میرڈ ایٹ فرسٹ سائٹ‘ (چینل 4) پر ریئلٹی ٹی وی کے مقابلوں میں حصہ لینے والے شرکا کو بھیجے جانے والے نفرت بھرے پیغامات کا تجزیہ کیا۔ انھوں نے دیکھا کہ ریئلٹی ٹی وی کے مقابلوں کی خواتین شرکا کو سوشل میڈیا پر غیر متناسب طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے جو اکثر خواتین کے خلاف نفرت اور نسل پرستی کے ملے جلے عنصر سے بھری ہوتی ہے۔

جبکہ مقابلے میں شریک افراد کو زیادہ تر مثبت پیغامات موصول ہوئے، 26 سالہ فیشن بلاگر کاز کاموی اور 23 سالہ میڈیکل کی طالبہ پریا گولپاڈوس نے پینوراما کو بتایا کہ انھیں کچھ نفرت سے بھرے پریشان کن پیغامات بھی بھیجے گئے۔

کاز کہتی ہیں کہ ’نسلی تعصب پر مبنی زیادتی سب سے مشکل زیادتی ہوتی ہے۔ جب آپ مجھے دیکھتے ہیں تو میں ایک سیاہ جلد والی سیاہ فام عورت ہوں، یہ پہلی چیز ہے جو آپ دیکھتے ہیں۔ اور اس حقیقت کے متعلق سوچ کر کہ میرے خاندان کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑا میرا دل ٹوٹ جاتا ہے۔‘

line

میں یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ اس قسم کی بدسلوکی کا کیا اثر پڑ رہا ہے، اس لیے میں نے سیاستدانوں اور فرنٹ لائن ڈاکٹروں سے بات کی جو اپنا کام کرنے کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں۔ میری طرح انھیں بھی اس سے کوئی مسئلہ نہیں کہ ان پر تنقید ہوتی ہے لیکن جب بات ذاتی ہو جائے تو انھیں برا لگتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

،ویڈیو کیپشن

جعلی خبروں کے جھانسے میں آنے سے کیسا بچا جائے

سکاٹش کنزرویٹیوز کی سابق رہنما روتھ ڈیوڈسن کو خدشہ ہے کہ آن لائن خواتین کو نشانہ بنانے سے مساوات کی دھجیاں بکھر جاتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جو حملے مجھ پر براہ راست کیے جاتے ہیں وہ میری سیاست کے بارے میں ہوتے ہیں، کچھ اس بارے میں کہ میں ظاہری طور پر کیسی نظر آتی ہوں، بہت سے اس حقیقت کے بارے میں کہ میں ہم جنس پرست ہوں اور بہت کچھ اس حقیقت کے بارے میں رہا ہے کہ میں ایک عورت ہوں جو اپنی رائے رکھتی ہے۔‘

آکسفورڈ میں مقیم فرنٹ لائن ڈاکٹر ریچل کلارک کہتی ہیں کہ آپ کو فون پر پیغامات آتے ہیں کہ وہ آپ کو این ایچ ایس ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے اس وقت تک ریپ کرنا چاہتے ہیں جب تک آپ کو خود وینٹیلیٹر کی ضرورت نہ پڑ جائے۔

Rachel Clarke and Marianna Spring

،تصویر کا ذریعہADRIAN POLGLASE/BBC

،تصویر کا کیپشن

ڈاکٹر ریچل کلارک اور ماریانہ سپرنگ

ڈاکٹر ریچل کورونا وائرس کے متعلق آگاہی پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہیں۔ وہ اپنے فالوورز کو کہتی ہیں کہ وہ کووڈ ویکسین لگوائیں۔ اور خصوصاً اس طرح کی ٹویٹس پر انھیں اکثر ویکسین کی مخالفت کرنے والے لوگوں اور گروہوں سے خواتین کے خلاف نفرت بھرے پیغامات ملتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جن مرد ڈاکٹروں کو میں جانتا ہوں ان کے ساتھ بھی آن لائن پر بدسلوکی ہوتی ہے۔ لیکن اس بدسلوکی کا حجم بہت کم ہوتا ہے۔ اگر آپ خاتون ڈاکٹر ہیں، تو یہ بہت زیادہ دکھ پہنچانے والا ہوتا ہے اور وہ آپ کو خاتون ہونے پر نشانہ بناتے ہیں۔‘

آف لائن تشدد

میں نے اقوام متحدہ کی ثقافتی ایجنسی یونیسکو کی ایک بڑی تحقیق میں حصہ لیا ہے جو آن لائن نفرت کے اثرات کے متعلق تھی۔ محققین کی انچارج جولی پوسیٹی اور ان کی ٹیم نے 700 سے زائد خواتین سے، جن میں سے بنیادی طور پر زیادہ تعداد صحافیوں اور سوشل میڈیا پر نمایاں کچھ سیاسی کارکنوں کی تھی، آن لائن نفرت کے بارے میں اپنے تجربات کے متعلق میں پوچھا۔

اس کے بعد انھوں نے کچھ اکاؤنٹس کا مطالعہ کیا، جن میں میرا اور نوبل امن انعام یافتہ ماریا ریسا کا اکاؤنٹ بھی شامل تھا۔ ماریا فلپائن سے تعلق رکھنے والی ایک تحقیقاتی صحافی ہیں جن کو بہت سی آن لائن بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ بلٹ پروف چیکٹ پہن کر باہر نکلتی ہیں کیونکہ انھیں خدشہ ہے کہ ان پر حملہ ہو سکتا ہے۔

پوسیٹی نے مجھے بتایا کہ ’آن لائن تشدد واقعی تنازع کا ایسا نیا فرنٹیئر ہے جس کا خواتین کو بین الاقوامی سطح پر سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس (آئی سی ایف جے) کے تعاون سے اقوام متحدہ کے سروے کا جواب دینے والی بیس فیصد خواتین نے کہا کہ انہیں پہلے ہی حقیقی زندگی میں حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جن میں ڈنڈا مارنا اور جسمانی حملہ بھی شامل ہے۔

میں خاص طور پر کچھ نفرتوں کے بارے میں پریشان ہوں جو مجھے آن لائن ملتی ہیں، بشمول ایک ایسے مرد کے جو عورتوں کو ڈنڈے مارنے کے لیے پہلے سے سزا یافتہ دکھائی دیتا ہے۔ لیکن میں پولیس کے جواب سے مایوس ہو گیا ہوں۔ اس سال اپریل کے آخر میں زیادتی کی لہر کے بعد، میں نے پولیس کو جنسی تشدد سمیت سب سے سنگین خطرات کی اطلاع دی۔ آن لائن پیغامات بھیجنا مجرمانہ جرم ہے جو کہ تکلیف پہنچانے کے لیے انتہائی ناگوار یا فحش ہیں۔

انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس (آئی سی ایف جے) کے تعاون سے اقوام متحدہ کے سروے کا جواب دینے والی بیس فیصد خواتین نے کہا کہ انھیں پہلے ہی حقیقی زندگی میں حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جن میں ہراساں کرنا اور جسمانی حملہ بھی شامل ہے۔

میں خاص طور پر آن لائن ملنے والے کچھ نفرت بھرے پیغامات کی وجہ سے پریشان ہوں، اس میں ایک ایسے مرد کے پیغامات بھی ہیں جو بظاہر عورتوں کا پیچھا کر کے انھیں ہراساں کرنے کا پہلا ہی مجرم ثابت ہو چکا ہے۔ لیکن میں پولیس کے جواب سے مایوس ہو گئی۔ اس سال اپریل کے آخر میں بہت سے نفرت بھرے پیغامات ملنے کے بعد میں نے پولیس کو جنسی تشدد سمیت سب سے سنگین دھمکیوں کی اطلاع دی۔

ایک افسر نے ابتدائی طور پر مجھ سے رابطہ کیا اور میرے ساتھ ہونے والی زیادتی کے شواہد مانگے، لیکن چند ہفتوں کے بعد مجھے اس نے بتایا کہ وہ اب کسی اور ٹیم میں ہے، میرا کیس کسی اور کو دیا جا رہا ہے اور اس میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ نئے افسر نے جولائی تک مجھ سے رابطہ ہی نہیں کیا اور مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ جو شواہد میں سے شروع میں شیئر کیے تھے وہ گم چکے ہیں۔

میں نے جولائی کے آخر میں نئے افسر کو ریپ کی نئی دھمکیوں، موت کی دھمکیوں اور بدسلوکی کے پیغامات کی ایک نئی کھیپ رپورٹ کرنے کی کوشش کی۔ اگست کے وسط میں جب میری اس سے ذاتی طور پر ملاقات ہوئی تو افسر نے تسلیم کیا کہ وہ اس کیس کو سنبھالنے کے لیے درست آدمی نہیں تھا اور یہ کسی ماہر ٹیم کو منتقل کرنا چاہیے تھا۔

اگست کے آخر تک میں پولیس کے تیسرے رابطہ افسر کے ساتھ بات کر رہی تھی۔

پولیس فورسز سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں آن لائن نفرت کی اطلاع دینے والوں کی تعداد دوگنی سے زیادہ ہو گئی ہے۔ لیکن اسی مدت کے دوران گرفتاریوں کی تعداد میں صرف 32 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ متاثرین میں زیادہ تر خواتین ہیں۔

حل کیا ہے؟

اقوام متحدہ کی جانب سے سوشل میڈیا کمپنیوں کو بھیجا جانے والا خواتین کے بہتر تحفظ کے لیے تجاویز کا مسودہ خصوصی طور پر پینوراما کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے کہہ رہے ہیں کہ ان اکاؤنٹس کے لیے لیبل متعارف کرائیں جو پہلے خواتین کے خلاف نفرت بھرا مواد بھیج چکے ہیں۔ وہ یہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ انسانی ماڈریٹرز ہوں جو جارحانہ مواد کے بارے میں فیصلے کریں۔ اور صارفین کے لیے ایک ابتدائی انتباہی نظام اگر وہ سمجھتے ہیں کہ آن لائن بدسلوکی حقیقی دنیا میں بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔

تحقیق کی سربراہ جولی پوسیٹی کہتی ہیں کہ ہم صنف پر مبنی آن لائن تشدد کو کم از کم اتنا ہی سنجیدگی سے دیکھنا چاہتے ہیں جتنا کہ پلیٹ فارمز پر وبائی امراض کے دوران ڈس انفارمیشن کو دیکھا گیا ہے۔

روتھ ڈیوڈسن کہتی ہیں کہ خواتین کو چیلنج کرنا چاہیے اور یہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے کہ عورتوں کے ساتھ مسلسل زیادتی ہوتی رہے جیسی کہ مردوں کے ساتھ نہیں ہوتی اور آن لائن پر رہنے والی دوسری خواتین یہ سوچنے لگیں کہ یہ ایک معمول کی بات ہے۔

’مجھ سمیت ہر عمر کی خواتین کے لیے اس کا مطلب ہے کہ سوشل میڈیا پر بُلی ہونے سے انکار۔‘