حالت یہ ہے کہ اب ایسے طنزیہ
فیس بکی تبصروں پر بھی ہنسی نہیں آتی کہ قانون سب کو ایک آنکھ سے دیکھتا ہے۔ کھلی
آنکھ سے کمزور کو اور بند آنکھ سے طاقتور کو۔
اب تو چیف جسٹس ثاقب نثار کی
ان باتوں سے بھی دل افسردہ نہیں ہوتا کہ ہائی پروفائل سیاسی کیسز میں عدالتوں کا
جس طرح وقت ضائع کیا جا رہا ہے اس سے عام آدمی کو انصاف کی فوری فراہمی بری طرح
متاثر ہو رہی ہے۔
مگر اس وقت اوپر سے نیچے تک
کی عام اور خصوصی عدلیہ میں جو انیس لاکھ مقدمات گل رہے ہیں کیا وہ پچھلے دس برس
میں دائر ہونے والے ہائی پروفائل سیاسی کیسز کی وجہ سے التوا میں ہیں ؟
پاکستان میں قصاص اور دیت کا
قانون کس طرح موم کی ناک بنا دیا گیا ہے اس پر آپ تاقیامت بحث کرتے رہیے مگر کراچی
میں پانچ برس قبل قتل ہونے والے بیس سالہ شاہزیب خان کے والد نے طاقت کے دیوتاؤں
سے معاوضہ قبول کر کے اپنے بیٹے کے قاتلوں کو معاف کر دیا ہے۔ لہذا سزائے موت پانے
والے دو مجرم اور عمر قید پانے والے دو مجرم اب آزاد ہیں۔ کوئی کچھ نہیں کر سکتا ،
نہ عدالت ، نہ قانون ، نہ آئین۔
ویسے بھی ریٹنگ زدگی کے دور
میں ایسی خبروں کی عمر چند گھنٹے سے زیادہ نہیں کہ دو مجرم پھانسی پر چڑھا دیے گئے
اور سال بھر بعد جس عدالت نے انھیں بری کیا اسے بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ پھانسی
چڑھ چکے ہیں۔
یا ایک شخص کے قتل کے الزام
میں اس کی بیوی ، ساس ، سسر اور ایک برادرِ نسبتی 19 برس جیل کاٹنے کے بعد باعزت
بری کر دیے گئے جبکہ ایک برس بعد انھیں ویسے ہی رہا ہو جانا تھا۔انیس برس یوں کٹ
گئے کہ جیل میں بند اس ان پڑھ خاندان کے پاس اس پولیس اہلکار کو دینے کے لیے چار
سو روپے بھی نہیں تھے کہ جس نے اعلی عدالت میں ان کی سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے
کا انتظام کرنا تھا۔
یا ایک شخص کو اپنے پلاٹ پر
سے قبضہ چھڑوانے کا عدالتی حکم حاصل کرنے میں 33 برس لگ گئے۔
کیا چیف جسٹس کی جانب سے محض
یہ اعتراف کر لینے سے مسئلہ حل ہوجائے گا کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر، غفلت اور
اسقاطِ انصاف کے ذمہ دار سبھی ہیں، عدلیہ، تفتیش ، وکیل ، قانونی نقائص،
موشگافیاں، قانون ساز ادارے، سائل اور طاقتور سب کے سب۔
آپ دیگر اداروں اور افراد کا
قبلہ درست کرنے کے لیے مفادِ عامہ کے نام پر جہاں اتنے ازخود نوٹس لیتے ہیں۔ایک
ازخود نوٹس یہ بھی لے لیں کہ لاکھوں زیرِ التوا مقدمات تیزی سے نمٹانے کی خاطر اگر
حکومت نے فلاں تاریخ تک اتنا بجٹ اور اتنی اضافی آسامیوں کی منظوری نہ دی تو پوری
کابینہ اور پارلیمنٹ کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے گا۔
آپ جج بننے کی اہلیت و صلاحیت
اور انکی جوڈیشل تربیت کا معیار جدیدیانے کے اقدامات تو شاید کر ہی سکتے ہیں ۔آپ
ناقص تفتیش کے ذمہ داروں کو انصاف کی حرمت کی خاطر سزا تو دے ہی سکتے ہیں۔
آپ ماتحت ججوں کو برسوں پر
محیط سٹے آرڈرز دینے سے تو غالباً روک سکتے ہیں ۔آپ ایسے تمام مقدمات خارج تو کروا
سکتے ہیں جن کے بارے میں جاننے کے لیے قانون دان ہونے کی بھی ضرورت نہیں کہ ان
مقدمات کا مقصد محض عدالت کا وقت ضائع کرنا ہے۔آپ پروفیشنل مقدمہ بازوں کی حوصلہ
شکنی کے لیے تنبیہہ و تادیب کا شکنجہ تو وضع کر ہی سکتے ہیں۔
آپ میڈیا کو بھی پابند تو کر
سکتے ہیں کہ کسی بھی مقدمے کی روزمرہ کارروائی یا ججوں کے دورانِ سماعت تبصرے اگر
مجاز عدالتی اہلکار کی تصدیق کے بغیر نشر یا شائع کیے گئے تو پورا ادارہ کٹہرے میں
بلا لیا جائے گا۔
آپ اس روایت کو بحال تو کروا
ہی سکتے ہیں کہ جج نہیں ان کے فیصلے بولتے ہیں اور فیصلے بھی ایسے جامع کہ بعد میں
ان کی ازخود وضاحت کی حاجت نہ ہو۔ جج بلا ناگزیر ضرورت کہیں نہیں آتے جاتے البتہ
ان کے فیصلوں کے اثرات ہر سمت جاتے ہیں۔
آپ اگر یہ سب کام نہیں کر
سکتے تو ان میں سے کچھ تو کر ہی سکتے ہیں۔
بابے رحمتے کو کبھی اپنا
تعارف کرانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ کام دوسروں کے بتانے کا ہے کہ وہ ہے بابا
رحمتا۔ انصاف لینا ہے تو اس کی ہٹی پر آنکھ بند کر کے چلے جاؤ۔ وہی ہے جو ناقص
قوانین کے کباڑ میں سے بھی خالص انصاف نکال کے سائل کی ہتھیلی پر رکھ دے گا بنا
کچھ بولے۔
بشکریہ بی بی سی اردو