ٹیکنالوجی ملازمت پیشہ خواتین کے لیے معاون


اسلام آباد کی رہائشی ڈاکٹر تہذیب کچھ عرصے سے اپنی نوکری چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہی تھیں جس کی وجہ اپنے تین بچوں کی پرورش میں مشکلات بنی۔ لیکن اب ایک موبائل ایپلیکیشن کی مدد سے اُن کا یہ مسئلہ حل ہو گیا ہے۔
تہذیب جیسی مائیں اس ایپ کے ذریعے ڈے کیئر میں موجود اپنے بچوں کو ڈیوٹی کے دوران نہ صرف دیکھ سکتی ہیں بلکہ وہاں ان کے سونے جاگنے اور کھانے پینے کے معاملات سے بھی باخبر رہ سکتی ہیں۔
ڈاکٹر تہذیب اور ان جیسے بہت سے والدین کی یہ مشکل آئی ٹی اور ویب ڈویلپمینٹ کے شعبے میں کامیابی سے کاروبار کرنے والی پاکستانی خاتون صحاح وارث نے حل کی ہے۔
وہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے علاوہ ملک کے دیگر بڑے شہروں میں موجود ورکنگ ویمنز اور ڈے کیئر سینٹرز کو اس ایپ کے ذریعے باہم ملا رہی ہیں۔
بی بی سی سے گفتگو میں صحاح نے بتایا کہ اب تک وہ 50 سے زائد ایپس بنا چکی ہیں لیکن اس طرح کے ایپ بنانے کا خیال انھیں اُس وقت آیا جب اُن کی بہن نے انھی وجوہات کی بنا پر نوکری چھوڑی۔
وہ کہتی ہیں کہ ایپ بنانے کے بعد انھوں نے کمیونٹی نیٹ ورک کے ذریعے کام کرنے والی ماؤں کو ایک پیلٹ فارم پر اکھٹا کیا۔
گو کہ پاکستان کے کچھ اداروں میں ڈے کیئر سینٹرز تو موجود ہیں لیکن ان کا نہ تو کوئی ڈیٹا موجود ہے اور نہ ہی یہ سرکاری طور پر رجسٹرڈ ہوتے ہیں اور والدین کے لیے ان پر مکمل انحصار نہ کرنے کی وجوہات میں سے ایک وہاں موجود سہولیات کا فقدان بھی ہوتا ہے۔
صحاح بتاتی ہیں کہ 'ابتدا کے بعد ایک بڑا چیلینج اچھی ٹیم کی تلاش تھا تاکہ والدین کو آن لائن بچوں کی پرورش کے حوالے سے بھی معلومات دی جا سکیں اور دوسرے پاکستان میں موجود ڈے کیئر سینٹرز کی تعداد اور وہاں موجود سہولیات کے بارے میں جانا جائے۔'
ڈاکٹر تہذیب
انھوں نے بتایا کہ 'ماؤں سے تو ہمیں بہت اچھا رسپانس ملا لیکن بہت سے ڈے کیئر سینٹرز اس ایپ کو لینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس میں جہاں مسئلہ پرائیویسی اور سہولیات کا تھا وہاں یہ بھی تھا کہ مسلسل بچوں کو مانیٹر کرنے کا اہتمام نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اچھی اور معیاری سہولیات دینے والے ڈے کیئر سینٹرز کو اس ایپلیکشن پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔'
انھوں نے بتایا کہ ہم ڈے کیئر سینٹرز میں پہلے خود جاتے ہیں اور وہاں صحت و صفائی اور بچوں کے آرام اور کھیل کے لیے سہولیات کو چیک کرتے ہیں اور پھر متعلقہ ڈے کیئر کو ایپ کے استعمال کی سہولت دیتے ہیں۔
اس سلسلے میں ڈے کیئر کے عملے کو تربیت بھی دی جاتی ہے۔ اس میں ناصرف صحاح خود حصہ لیتی ہیں بلکہ ان کی سات ممبران پر مشتمل ٹیم میں موجود ماہر نفسیات اور بچوں کی نگہداشت و تربیتی امور کے حامل افراد ساتھ دیتے ہیں۔
وہ اب پاکستان کے مختلف شہروں اور اداروں میں اس ایپ کو متعارف کروانے میں مصروف ہیں جبکہ کچھ بیرونی ممالک نے بھی ان سے رابطہ کیا ہے۔
رائز مام کی ٹیم تمام ڈے کیئر سینٹرز کے مسلسل رابطے میں رہتی ہے اور انھیں مانیٹر کرتی ہے۔ تاہم والدین کے لیے مسلسل بنیادوں پر ایسا ممکن نہیں۔ وہ دن میں پانچ بار ساٹھ سیکنڈ یعنی ایک منٹ کے لیے اپنے بچوں سے ویڈیو پر رابطہ کر سکتی ہیں۔
rise mom
صحاح اس پلیٹ فارم کے ذریعے نہ صرف والدین کو بہترین ڈے کیئر سینٹرز کی تلاش میں بھی مدد دے رہی ہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسی ماؤں کی مدد بھی کر رہی ہیں جو پھر سے نوکری کی تلاش میں ہیں۔
ڈاکٹر تہذیب کہتی ہیں کہ ملک میں کام کرنے والی خواتین میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن ان کے لیے اتنی سہولیات موجود نہیں ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ گذشتہ 12 برس میں اپنے بچوں کی نگہداشت میں بہت مشکلات کا سامنا رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب مجھے کام کے دوران بچے کی خوراک اور آرام کی فکر نہیں ہوتی اور میں پرسکون انداز میں اپنے دفتر کی ذمہ داری ادا کر سکتی ہوں۔
ڈاکٹر تہذیب کہتی ہیں کہ ’یہ ایپ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ کچن میں کام کرتے ہوئے چند لمحوں کے لیے بچے کے پاس جا کر اس پر نظر ڈال لیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح دن کو ہسپتال میں کام میں مصروفیت کے دوران میں موبائل یا ڈیسک ٹاپ پر موصول ہونے والے نوٹیفکیشنز کو دیکھ سکتی ہوں اور ایک منٹ کے لیے بچے سے ویڈیو کال پر رابطہ بھی کر سکتی ہوں۔'