چین نے انٹرنیٹ
سے متعلق ملکی قوانین کی مبینہ خلاف ورزی پر 2015ء سے لے کر اب تک 13 ہزار ویب
سائٹس کو یا تو بند کردیا یا ان کےلائسینس منسوخ کردیئے۔
یہ خبر ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب کیمونسٹ ملک چین انٹرنیٹ پر
پہلے سے لاگو سخت قوانین کو مزید سخت کر رہا ہے اور ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر شی
جنپنگ کے 2012ء میں صدر بننے کے بعد یہ پالیسی مزید سخت ہونا شروع ہوئی۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی شنخوا کی اتوار کی رپورٹ کے مطابق
ملک میں "سروس پروٹوکول کی خلاف ورزی" پر تقریباً ایک کروڑ انٹرنیٹ
اکاؤنٹس کو بند کر دیا گیا جو کہ ممنکہ طور پر سماجی میڈیا کے اکاونٹس ہو سکتے
ہیں۔
شنخوا نے چین کی نیشنل پیپلز کانگرس (این پی سی) کی قائمہ کمیٹی کے
وائس چئیرمین وانگ شین جن کے حوالے سے بتایا ہے کہ " یہ اقدامات روک تھام کے
لیے موثر ہیں ۔"
امریکہ میں قائم 'فریڈم ہاؤس' نامی تنظیم کی 2015ء کی ایک رپورٹ کے
مطابق دنیا میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ اکاؤنٹ رکھنے کے باوجود اس ملک کی انٹرنیٹ کی
پالیسیاں نہایت ہی سخت ہیں اور چین کی درجہ بندی اس حوالے سے ایران اور شام سے بھی
نیچے ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق رواں سال چین نے نئے
قواعد و ضوابط مرتب کیے جن کے تحت ٹیکنالوجی کی غیر ملکی کمپنیوں کو پابند کیا گیا
ہے کہ وہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے کے ڈیٹا کو ملک کے اندر ہی اسٹور کریں۔ اس کے
علاوہ دیگر کئی ایسے اقدامات بھی کیے گئے جن کی وجہ سے ایسے سافٹ وئیر ٹولز کو
استعمال کرنا مشکل ہو گیا جو سینسر سے بچنے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
چین میں گوگل، فیس بک، ٹوئٹر اور موقر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز
اور ان گنت غیر ملکی ویب سائٹس بند ہیں۔
چین کا موقف ہے کہ "سائبر خود مختاری" کے تحت ملک کی
قومی سلامتی کے لیے ویب سینسر شپ کے مختلف طریقے برقرار رکھنا ضروری ہے۔
چین میں 2000ء سے نافذ قواعد و ضوابط کے تحت ویب سائٹس کو متعلقہ
حکام کے پاس رجسٹر کروانا ضروری ہے اور ان پر پوسٹ ہونے والے مواد کی قانونی حیثیت
کو یقینی بنانا ان کی ذمہ داری ہے۔
اگر ان قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی میں کوئی مواد ان ویب سائیٹ پر
پوسٹ کیا جاتا ہے تو انہیں بند کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ملک میں پرائیویٹ نیٹ ورک استعمال کرنے پر بھی پابندی
ہے جس کی مدد سے کوئی بھی شخص دیگر ملکوں کی ویب سائٹ استعمال کر سکتا ہے۔