حمیرا کنول
بی بی سی اردو
ڈاٹ کام آسلام آباد
زینب کے
واقع پر پورے ملک میں احتجاج ہوا ہے
پاکستان میں سال 2017 کے پہلے چھ
ماہ کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 768 واقعات پیش آئے جن میں سے 68 ضلع
قصور سے رپورٹ ہوئے۔
تبصرہ
By حمیرا کنول بی بی سی اردو ڈاٹ کام آسلام
آباد
ساحل کی رپورٹ بھی اخباری خبروں سے مرتب کی گئی ہے
کیونکہ انتہائی حساس نوعیت کے اس مسئلہ پر کوئی سرکاری ادارہ ایسے اعداد و شمار
جمع نہیں کرتا۔ عوامی نمائندے اور سرکاری حکام یا تو اس بیہانک حقیقت کو تسلیم
کرنے کے تیار نہیں یا اس سے انکار کرتے ہیں
یہ اعداد و شمار نجی سطح پر کام کرنے والی تنظیم ساحل
کی رپورٹ سے لیے گئے ہیں جبکہ وفاق اور صوبائی سطح پر اس قسم کا کوئی مربوط نظام
موجود نہیں جس میں بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق مستند معلومات اور اعداد
و شمار اکھٹے کیے جائیں۔
گذشتہ ایک سال کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے 768
واقعات کے بارے میں کسی صوبائی اور وفاقی ادارے کے پاس ایسی کوئی تفصیل موجود نہیں
ہے کہ ان میں سے کتنے کیسز میں ملزمان گرفتار ہوئے یا انھیں سزائیں سنائی جا سکیں۔
صوبائی اور وفاقی حکام یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بچوں کے
تحفظ میں اقدامات اور قوانین پر عملدرآمد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
ساحل کی رپورٹ کے مطابق اخباروں سے حاصل ہونے والے
اعداد و شمار سے پتا چلا کہ جنوری 2017 سے جون 2017 کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتی
اور تشدد کے سب سے زیادہ واقعات صوبہ پنجاب میں پیش آئے۔
ضلع قصور جو سنہ 2015 میں ویڈیو سکینڈل کی وجہ سے خبروں
میں رہا وہاں 2016 میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور تشدد کے کل 141 کیسز میں سے99 جنسی
تشدد اور ریپ اور پھر قتل کیے جانے کے تھے۔
قصور میں کم سن زینب کے قتل کے بعد
صورتحال کشیدہ ہے
اسی طرح سنہ 2017 کے پہلے چھ ماہ میں یہ تعداد 68 رہی۔
ضلع قصور میں پولیس حکام کے مطابق اغوا کے بعد ریپ اور
قتل کے 12 مقدمات درج ہیں۔ ان واقعات میں سے پہلا واقعہ ٹھیک ایک سال قبل چار
دسمبر 2016 کو پیش آیا جب کہ زینب کی گمشدگی سے ایک ماہ پہلے ہی کائنات بھی لاپتہ
ہوئی تھیں جو اس وقت صدمے کی حالت میں قصور کے ہی ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
اگر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے علاوہ ان پر تشدد اور
کم عمری کی شادی اور دیگر مسائل کو بھی شامل کیا جائے تو بچوں کے خلاف جرائم کی کل
تعداد 1764 بن جاتی ہے۔
بچوں کے خلاف جرائم کے لحاظ سے ملک کا دارالحکومت اسلام
آباد سنہ 2016 میں پاکپتن کے 169 واقعات کے بعد 156 کیسز کے ساتھ سرفہرست رہا۔
ساحل کی ششماہی رپورٹ 2017 کے مطابق تناسب کے اعتبار سے
زیادہ تر واقعات دیہی علاقوں میں پیش آئے۔
ان اعداد و شمار سے یہ پتہ چلا کہ گذشتہ سال کے پہلے چھ
ماہ میں کل 1764 کیسز میں سے پنجاب میں 62 فیصد، سندھ میں 28 فیصد، بلوچستان میں
58، کے پی میں 42 اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں نو فیصد رجسٹرڈ ہوئے۔
گذشتہ دو برسوں میں اسلام آباد، قصور، لاہور، راولپنڈی،
شیخوپورہ، مظفرگڑھ، پاکپتن، فیصل آباد، ویہاڑی، خیرپور، کوئٹہ، اوکاڑہ اور سیالکوٹ
ایسے اضلاع کے طور پر سامنے آئے جہاں بچوں کے تحفظ کے حوالے سے صورتحال تشویشناک
ہے۔
بچوں
کے خلاف جرائم، بے حسی یا حقیقیت سے انکار؟
پاکستان
میں بچوں کی اندرون ملک سمگلنگ یا انٹرنل ٹریفکنگ کو روکنے کے لیے کسی قسم کا
قانون موجود نہیں ہے۔
چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو پنجاب کی چیئرپرسن
اور رکن پنجاب اسمبلی صبا صادق کہتی ہیں کہ اس سے قبل پیش آنے والے واقعات کے بعد
ہم نے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ رابطہ کیا اور بچوں اور
والدین کو نفسیاتی معاونت دینی شروع کی۔
تاہم وہ تسلیم کرتی ہیں کہ ’ اب ہم اس کا کوئی جواز
نہیں دے سکتے کہ ہم نے جتنی کوششیں کی وہ زینب پر آکر پریشانی کا باعث ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ گذشتہ برس قصور میں بچوں کے ساتھ
جنسی زیادتی کے واقعات کے بعد چند مشتبہ افراد مقابلے میں مارے بھی گئے۔
’صرف 2017 میں حکومت نے پنجاب میں
7067 بچوں کو بازیاب کرایا ہے۔ ‘
لاہور میں
16 سالہ گھریلو ملازم اختر علی کی ہلاکت ہوئی تھی
’ہم نہتے ہیں،،،۔۔۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ڈائریکٹر نیشنل کمیشن
فار چائلڈ ویلفییر خالد لطیف نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ 'جب قصور میں یہ
واقعہ پیش آیا تو اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی اور پلان پاکستان کے ساتھ مل کر وہاں
تحقیقات کرنے کا ارادہ کیا گیا کہ کیا وجوہات ہیں کہ وہاں ایسے واقعات بڑھ رہے ہیں
لیکن ابھی تک اس منصوبہ پر عمل نہیں ہو سکا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ دس سال کی کوششوں سے ملک میں
بچوں پر جنسی تشدد کے خلاف کرمنل لا کا ترمیمی بل 2016 کمیٹی کی سطح پر پاس کروایا
جو ابھی اسمبلی سے پاس ہونا باقی ہے۔ اس کے علاوہ چائلڈ رائٹس کمیشن ایکٹ بنا ہے
جس کے تحت بچوں کے لیے کمیشن بنایا جائے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت اسلام آباد میں سٹریٹ چائلڈ کو
تحفظ دینے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
بچوں کو تشدد اور استحصال سے بچانے کے اس سنیگین مسئلے
پر کی جانے والی گفتگو کو وفاقی وزارت برائے انسانی حقوق کے ماتحت کام کرنے والے
نینشنل چائلڈ پروٹیکشن سینٹر کےڈپٹی ڈائریکٹر زاہد ریحان خان نے سمیٹتے ہوئے کہا
کہ ’میں یہ نہیں کہوں گا کہ سب اچھا ہے کی رپورٹ ہے ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں لیکن
معافی چاہوں گا نہیں کرتے۔ ہم نہتے ہیں شاید یہ ہماری حکومت کی ترجیحات میں نہیں۔
میں بارہ سال سے اس منسٹری کے سینٹر میں کام کر رہا ہوں۔ بچوں کے حقوق کے لیے صاف
ستھرا بل تھا لیکن اسے مغرب کا ایجنڈا کہا جاتا رہا۔‘
’میں نے ایک میٹنگ میں شرکت کی جس
میں بہت سے ایم این اے شریک تھے وہاں ساٹھ سے 65 فیصد لوگوں کی یہی رائے تھی کہ آپ
یو این کے ایجنڈے کو آگے لے کر آرہے ہیں ہماری تو سوسائیٹی بہت اچھی ہے، وہ تو
بچوں کو بہت پروٹیکٹ کرتی ہے۔ ہمارا فیملی سسٹم بہت مضبوط ہے،
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکام ان اعداد و شمار کو تسلیم
کرنے سے گریزاں رہتے ہیں جو انھیں مختلف رپورٹس میں دیے جاتے ہیں کہ اتنی تعداد
میں بچے سڑکوں پر ہیں یا باہر کسی نہ کسی جگہ پر کام کرتے ہیں اور صورتحال یہ ہے
کہ ہمارے دفتر میں اس وقت عملے کے ساتھ اراکین کی نشستیں خالی ہیں نہ کوئی ڈاکٹر
ہے اور نہ ہی نفسیاتی معالج۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو