تصویر کے
کاپی رائٹFACEBOOK
نقیب اللہ
فوٹو گرافی کا شوق رکھتا تھا اور ان کا سٹائل ماڈلز جیسا ہوتا تھا
سندھ کے صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے کراچی میں
مبینہ پولیس مقابلے میں نوجوان نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کی تحقیقات کا حکم دے دیا
ہے۔
ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے اس نوجوان کو عثمان
خاصخیلی گوٹھ میں مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا اور ان کا تعلق تحریک طالبان
سے بتایا تھا۔
تاہم سوشل میڈیا پر نقیب اللہ محسود کے قتل پر بحث شروع
ہو گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے اس معاملے کا نوٹس لیا ہے اور
صوبائی وزیر داخلہ کو تحقیقات کے لیے کہا تھا۔
نقیب اللہ کے کزن نور رحمان نے ڈی آئی خان سے ٹیلیفون
پر بی بی سی کو بتایا کہ ’نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ میں شیر آغا ہوٹل سے دو اور تین
جنوری کی شب سادہ کپڑوں میں اہلکاروں نے اٹھایا تھا، جس کے بارے میں انھیں چار روز
کے بعد معلوم ہوا۔‘
نقیب اللہ محسود کا بھائی دبئی میں اور گھر والے جنوبی
وزیرستان کی تحصیل مکین کے گاؤں رزمک میں رہتے ہیں۔
نور رحمان نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر کراچی میں مقابلے
میں ہلاک ہونے والوں کی تصویر چل رہی تھی جس میں سے ایک نوجوان اوندھے منہ پڑا ہوا
تھا اور اس کے بڑے بال تھے، اس نوجوان کی انھوں نے ہاتھوں اور کلائیوں کی مدد سے
شناخت کی۔
نقیب اللہ کی مبینہ پولیس
مقابلے میں ہلاکت کے خلاف مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں
نقیب اللہ کے دوست محمد ہاشم نے بتایا کہ وہ شاہ لطیف
ٹاؤن پولیس اور دیگر تھانوں پر معلومات کے لیے گئے تھے لیکن انہیں کہیں سے کوئی
معلومات نہیں ملیں اور 17 جنوری کو ان کے رشتے داروں کا ٹیلیفون آیا کہ چھیپا کے
سرد خانے میں نقیب اللہ کی لاش موجود ہے اور انھوں نے جا کر لاش وصول کی۔
ہاشم کہتے ہیں کہ ’نقیب اللہ فوٹو گرافی کا شوق رکھتا
تھا اور ان کا سٹائل ماڈلز جیسا ہوتا تھا، ان کے فیس بک پر ان کے کئی سو چاہنے
والے موجود ہیں اور ان کا کسی سیاسی مذہبی یا شدت پسند تنظیم سے تعلق نہیں ہے‘۔
ادھر ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا کہنا ہے کہ ’نقیب
اللہ نے نسیم اللہ کے نام سے شناختی کارڈ بنا رکھا تھا اور وہ مطلوب ملزم تھا جو
ڈیرہ اسماعیل خان سے آکر حب میں رہتا تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اس نے نسیم اللہ کے نام سے کیوں
شناختی کارڈ بنایا تھا اور جن جرائم پیشہ افراد کے ساتھ مقابلے میں مارا گیا ہے وہ
ان کے ساتھ کیا کرنے آیا تھا؟‘
نقیب اللہ کے اہلخانہ کے مطابق مقتول کے تین بچے ہیں جن
کی عمریں دو سے نو سال کے درمیان ہیں اور یہ بچے ان دنوں اپنے ننھیال ڈی آئی خان
آئے ہوئے تھے۔
مظاہرین
نقیب اللہ محسود کے لیے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں
رحمان کا کہنا ہے کہ نقیب اللہ 2008 میں کراچی آئے تھے
جہاں وہ حب چوکی میں فیکٹری میں کام کرتے تھے جبکہ انھوں نے کپڑے کے کاروبار کا
فیصلہ کیا تھا جس کے لیے سہراب گوٹھ میں دکان بھی کرائے پر لے لی گئی تھی۔
ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا کہنا ہے کہ ’نقیب اللہ
کراچی میں ابو الحسن اصفہانی روڈ پر کپڑے کی دکان میں 70 یا 80 لاکھ روپے کی
سرمایہ کاری کرنا چاہتا تھا۔ یہ پیسے کہاں سے آئے جبکہ رشتے دار کہتے ہیں کہ وہ
فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ فیکٹری میں آخر کتنی تنخواہ ملتی تھی جس میں سے وہ فیملی
کو بھی دیتا تھا اور جمع بھی کرتا تھا؟‘
نقیب اللہ محسود کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے خلاف
کراچی، پشاور سمیت کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں۔
کراچی میں اس سے قبل بھی ماورائے عدالت قتل کی شکایات
سامنے آتی رہی ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سالہ 146
افراد مبینہ طور پر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے
ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ ان میں سے 140 ہلاکتوں کے پولیس مقابلوں میں دعوے کیے گئے ہیں
بشکریہ بی بی سی اردو