چائے، پکوڑے اور انصاف


آپ بھی کبھی عرضی لے کر گئے ہوں گے۔ کبھی بجلی کا ناجائز بل کم کروانے، کبھی بیٹے کو تھانے سے چھڑوانے، کبھی بیٹی کو یونیورسٹی میں داخلہ دلوانے۔
اگر آپ باقاعدہ کارڈ والے صحافی ہیں، حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں، یا کسی بھی نیم اہم سرکاری عہدے پر فائز ہیں یا پھر آپ کو خود بھی نہیں پتہ کہ آپ کیا ہیں، لیکن آپ کے کسی بااثر دوست یا رشتے دار نے افسر سے پہلے سے بات کر رکھی ہے تو آپ کو دفتر میں کرسی پیش کی جائے گی، پھر آپ کے عہدے یا آپ کی سفارش کرنے والے کے عہدے کے حساب سے چائے پیش کی جائے گی۔
ہو سکتا ہے آپ دل میں کہیں کہ ’بھائی چائے تو گھر پر بھی مل جاتی ہے، آپ میری عرضی پر تو کارروائی کریں۔‘ لیکن آپ ایسا نہیں کریں گے، کیوں کہ ہو سکتا ہے چائے سے انکار پر افسر آپ کو بدتمیز سمجھ کر بدگمان ہو جائے۔
اگر آپ میری طرح سرکاری درباری ماحول سے ذرا زیادہ ہی مرعوب ہوتے ہیں تو ہو سکتا ہے اپنی عرضی بھول جائیں اور باہر آ کر کہتے پھریں کہ ’کام ہو نہ ہو، آپ کے بھائی کی عزت بہت ہے۔
زندگی میں ایک دفعہ ایک وزیرِ اعظم نے چائے پلائی تھی (آزاد کشمیر کا وزیرِ اعظم وزیرِ اعظم ہی ہوتا ہے)۔ چائے کے ساتھ انتہائی لذیذ پکوڑے بھی تھے۔ تب سے مجھے یہی لگتا ہے کہ وزیرِ اعظم اپنے پائیں باغ میں بیٹھا چائے پیتا ہو گا اور پکوڑے کھاتا ہو گا۔ اگر میں وزیرِ اعظم ہوتا تو یہی کرتا۔
تو جب گذشتہ دنوں چیف جسٹس صاحب نے میڈیا کے معززین کی پوری برات کو عدالت میں بلایا اور بظاہر بزرگ، لیکن دل اور دماغ کے پھرتیلے جوان صحافی آئی اے رحمان کو چائے کی صلح ماری تو انھوں نے دھیمے اور اکتائے ہوئے لہجے میں کہا، 'جنابِ والا چائے نہیں، انصاف چاہیے۔'
پاکستان
آپ نے کچھ سرکاری افسر ایسے بھی دیکھے ہوں گے جہاں آپ کو پتہ ہوتا ہے کہ نہ چائے ملے گی، نہ کام ہو گا، افسر آپ کی عزت افزائی کے بہانے اپنی افسری کی دھاک بٹھاتا رہے گا۔
تو ایک بنیادی سا سوال یہ ہے کہ اگر چیف جسٹس صاحب نے چائے بھی نہیں پلانی تھی تو صحافت کے اتنے سارے ستاروں کو کمرۂ عدالت میں کیوں بلایا تھا؟ (جن کو نہیں بلایا پتہ نہیں وہ کیا منہ لے کر گھر گئے ہوں گے)۔
پہلی بات تو یہ طے ہو گئی کہ وہ جو بابے رحمتے والی بات کرتے ہیں وہ مذاق نہیں۔ وہ واردات کے بعد قانون کی کتابوں میں وقت ضائع نہیں کرتے بلکہ گاؤں کے بڑوں کی پنچایت بلاتے ہیں، اور حقہ تازہ کر کے پوچھتے ہیں کہ ’ہور کیہ حال اے، تہاڈا کیہ خیال اے۔ میر صاحب آپ، خان صاحب آپ کی کیا رائے ہے؟ وڑائچ صاحب تسی کیوں چپ او؟
یہ ایسا ہی معصومانہ انصاف ہے جیسے مریض ڈاکٹر کے پاس جائے اور ڈاکٹر ہسپتال کے سارے مریضوں کو اکٹھا کر کے پوچھے: ’چونکہ آپ سب تجربہ کار مریض ہیں اس لیے آپ ہی کوئی علاج کا طریقہ بتائیں۔
آپ مانیں نہ مانیں پاکستان میں اینکرپرسن کچھ دیومالائی قسم کے کردار بن چکے ہیں۔ مجھ سے عین جنازے کے بیچ لوگوں نے پوچھا ہے کہ ’آپ تو صحافی ہیں، آپ کو پتہ ہو گا کہ فلاں اینکر پرسن کی تنخواہ ڈھائی کروڑ روپے ماہانہ ہے۔‘ میں یہ کہہ کر جان چھڑا لیتا ہوں کہ ’پہلے فاتحہ نہ پڑھ لیں، پھر بتاؤں گا۔
میڈیا
تصویر کے کاپی رائٹ شاہد مسعود کے مقدمے اب بحث یہ رخ اختیار کر گئی ہے کہ میڈیا کو کیسے جوابدہ بنایا جائے
پہلے تیز بچے بڑے ہو کر سونے کا سمگلر بننا چاہتے تھے، یا خلانوردی کرنے چاہتے تھے، اب بڑے ہو کر اینکر پرسن بننا چاہتے ہیں۔
میڈیا کی یہ دیومالا اتنی تیزی سے پھیلی ہے کہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ آج کل کئی ٹی وی پروگراموں میں ایک اینکر پرسن دوسرے اینکر پرسن سے پوچھتا ہے کہ جو تیسرے اینکر پرسن نے بات کی تھی اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
لیکن بڑے سے بڑا اینکر پرسن بھی اپنے ایک شو میں زیادہ سے زیادہ تین یا چار اینکر پرسن ہی اکٹھے کر پاتا ہے۔ اب گنیں چیف جسٹس صاحب نے اپنے پروگرام میں کتنے اکٹھے کیے۔
حسد کے مارے کچھ صحافی اینکر اکثر کہتے ہیں کہ آج کل کے ٹاک شوز میں صحافت نہیں ہوتی بلکہ عدالت لگتی ہے۔ تو بھائیو، اگر ٹاک شو میں عدالت لگ سکتی ہے تو عدالت ٹاک شو کیوں نہیں ہو سکتی؟
ہر پنچایت میں کوئی بڑا ایک چھوٹی سی کام کی بات کر کے چلا جاتا ہے۔ اس کے بعد لیلیٰ مجنوں کے قصے تو ساری رات چل سکتے ہیں۔ ہمارے صحافیوں اور غیر صحافیوں کو رحمان صاحب کی آواز میں آواز ملانی چاہیے اور آگے بڑھانی چاہیے۔
چائے نہیں انصاف چاہیے۔
بریانی کا وعدہ اللہ نے کیا ہے، آپ سے انصاف چاہیے۔
انتقام نہیں، انصاف چاہیے۔
ظلم پر بہنے والے آپ کے آنسو نہیں چاہییں، انصاف چاہیے۔
بابوں والی نصیحتیں نہیں چاہییں، انصاف چاہیے۔
ٹی وی کا ٹِکر نہیں چاہیے، انصاف چاہیے۔
شام ڈھلنے کو ہے، عدالت کا وقت ختم ہوا چاہتا ہے۔ انصاف چاہیے۔