ڈاکٹر سلام سائنسی سوچ و تحقیق کی شاہراہ کے نامور ستون تھے: ڈاکٹر طاہر روحیل

شعبہٴ طبیعات میں نوبیل انعام یافتہ مشہور پاکستانی سائنس داں، ڈاکٹر عبدالسلام کی آج 92ویں سالگرہ تھی، جن کی بیش بہا تحقیق نظریاتی طبیعات کے میدان پر مرکوز رہی۔
وہ پاکستان کی خلائی و بالا فضائی تحقیق اور جوہری توانائی کی ٹیکنالوجی کے بانیوں میں سے تھے، جنھوں نے پاکستان میں سائنس کی تحقیق کے میدان میں بلندی کے جھنڈے گاڑے۔ سنہ 1960سے 1974ء تک وہ حکومت پاکستان کے مشیر برائے سائنس رہے۔ سنہ 1962 میں پروفیسر عبدالسلام پاکستان اٹومک انرجی کمیشن سے وابستہ ہوئے اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹيکنالوجی کی بنیاد رکھی۔
اسی دور کے ایک اور نامور سائنس داں، ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی کے ہمراہ، ڈاکٹر سلام نے پاکستان میں نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے کام میں پیش رفت کی سمت کا تعین کیا۔ سنہ 1998 میں ڈاکٹر سلام کی خدمات کو سراہتے ہوئے، حکومت پاکستان نے ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ کا اجرا کیا۔
وہ 1926ء میں پنجاب کے شہر ساہیوال میں پیدا ہوئے، جن کے والدین کا تعلق ایک متوسط خاندان سے تھا۔ عبدالسلام ایک ہونہار بچہ تھا، جو اسکول کے زمانے میں ہی اپنی ذہانت کا لوہا منوا چکا تھا، اور ریاضی اور انگریزی مضامین میں نمایاں تھے، اور تسلسل کے ساتھ وظائف حاصل کرتے ہوئے تعلیم مکمل کی۔
اُس دور میں جب تعلیم کے میدان میں کم ہی مسلمان اعلیٰ درجے تک پہنچتے تھے، عبدالسلام نے 12 برس کی عمر میں جھنگ کے مقامی کالج سے انٹرمیڈیٹ امتحان پاس کیا۔ وہ سائیکل پر سوار ہو کر منگھیانہ سے جھنگ شہر جایا کرتے تھے۔
سنہ 1943ء میں اسکالرشپ کے امتحان میں حساب میں 300 میں سے 300 اور انگریزی میں 150 میں سے 121 نمبر آئے، جس کے بعد، علاقے میں اُنھیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور لوگ اُن کی ذہانت کی مثالیں دیا کرتے تھے۔
سنہ 1946ء میں وہ کیمبرج یونیورسٹی میں داخل ہوئے 1947 سے 1949ء تک فزکس پڑھتے رہے اور ڈاکٹوریٹ کی ڈگری حاصل کی اور سائنس داں کے طور پر نام پیدا کیا۔ وہ 1951 میں واپس آئے، سنہ 1953 میں پنجاب میں احمدیوں کے خلاف بلوے ہوئے؛ اور یوں وہ ریاضی کے لیکچرر کے طور پر سینٹ جان کالج، لندن واپس چلے گئے۔ پھر وہ ایمپریل کالج میں پروفیسر بنے؛ 1955ء میں اُنھیں پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کا فیلو مقرر کیا گیا۔ ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وہ پاکستان میں سائنس کے افق پر چھائے رہے، پاکستان میں جوہری توانائی کی تحقیق میں مثالی کام کیا۔
ایک مضمون میں، ڈاکٹر عبدالسلام نے لکھا ہے کہ جب سنہ 1936ء میں وہ جھنگ شہر کے اسکول میں تعلیم حاصل کرتے تھے، ایک استاد نے کائنات کی بنیادی توانائی سے متعلق تعلیم دیتے ہوئے کشش ثقل کا ذکر کیا، جس کے بارے میں ’’ہم نے سن رکھا تھا‘‘۔ پھر اُنھوں نے بجلی کا ذکر کیا، ’’جو لاہور میں تو تھی لیکن ابھی جھنگ تک نہیں پہنچی تھی‘‘۔ پھر استاد نے جوہری توانائی کا ذکر کیا اور خود ہی کہا کہ ’’یہ توانائی یورپ میں پائی جاتی ہے‘‘۔
بد قسمتی سے، پاکستانی معاشرے میں شروع ہی سے تنگ نظری کا معاملہ عام رہا ہے، اور ساتھ ہی سائنس کی تعلیم پر ضرورت کے مطابق توجہ کا فقدان رہا ہے۔
وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے، 'پاک امریکہ ڈیموکریسیی ڈائیلاگ' کے کنوینر، ڈاکٹر طاہر روحیل نے منگل کے روز کہا کہ ’’ڈاکٹر عبدالسلام سائنسی سوچ، رویے اور تحقیق کی شاہراہ کے ایک نمایاں ستون تھے‘‘۔
نیوٹن اور والٹیئر کا حوالہ دیتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ ’’اِسی انسانی سوچ کا ثمر تھا کہ انسان نے مذاہب اور عقائد سے بالا تر ہوکر سائنس کے میدان میں پیش رفت کی، جب کہ پاکستان میں اس کا ادراک نہیں ہے؛ جب کہ مثبت سوچ ہی انسانی بقا کی ضمانت ہے‘‘۔



بشکریہ اردوVOA