گذشتہ برس مردان میں ہلاک کیے گئے طالبعلم مشال خان کے
والد اقبال خان کا کہنا ہے کہ 'ملک پر چھائے تشدد کے اندھیرے کو دور کرنے کے لیے
چاہیے کہ عدم تشدد کی تحریک چلائی جائے۔'
مشال خان کو عبدالولی خان یونیورسٹی میں گذشتہ برس ایک
بے قابو ہجوم نے مبینہ توہین مذہب کے الزام میں وحشیانہ طریقے سے ہلاک کر دیا تھا۔
ان کے والد اقبال خان سنیچر کی شام یونیورسٹی آف لندن
میں بلومزبری پاکستان کے زیرِ اہتمام عبدالغفار خان کی تیسویں برسی پر منعقدہ باچا
خان لکچر میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ انھیں باچا خان کے لقب سے مشہور خان
عبدالغفار خان کو قریب سے دیکھنے اور ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
اقبال خان کا کہنا تھا کہ 'باچا خان کے خدائی خدمتگاروں
کے پاس کوئی ہتھیار نہ تھا۔ جو تھا وہ عدم تشدد تھا۔'
اقبال خان نے خدائی خدمتگار تحریک کے بانی خان
عبدالغفار خان کی زندگی، پختونوں کی بیداری اور برصغیر کی تحریک آزادی میں باچا
خان کے کردار پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
ان کا کہنا تھا کہ پختون قوم کو تعلیم سے روشناس کرانے
میں باچا خان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اقبال خان کے مطابق وہ فلسفۂِ عدم تشدد کے داعی
تھے۔ پختون قوم کو آزادی کے حصول کے لیے یہ ہی راستہ اپنانے کا درس دیا اور خود
بھی تمام عمر اس پر کاربند رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ باچا خان اپنے پیروکاروں کو عدم تشدد
اور پر امن احتجاج کے ذریعے مقصد کے حصول کا درس دیتے تھے اور کہتے تھے کہ عدم
تشدد میں شکست نہیں کیونکہ یہ مکمل فلسفۂ حیات ہے۔
اقبال خان نے کہا کہ نوجوانی کے زمانے میں وہ باچا خان
کے ساتھ گدون امازئی گئے تھے جہاں لوگ حکومت کے خلاف مشتعل تھے تو 'باچا خان نے ان
سے کہا کہ حکومت کی مثال ایک پہاڑ کی سی ہے۔ اس سے اپنا سر مت ٹکراؤ۔ اس پہاڑ میں
راستہ بنانے کی کوشش کرو۔ عدم تشدد کا راستہ اپناؤ۔'
باچا خان کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ عدم تشدد
کا فلسفہ انھوں نے مہاتما گاندھی سے لیا تھا۔ تاہم بی بی سی پشتو کے داؤد اعظمی کا
کہنا ہے کہ باچا خان کے فلسفۂ عدم تشدد کی بنیاد پیغمبرِ اسلام کا سفرِ طائف تھا
کہ جب وہ اسلام کی دعوت لے کر شہر کے لوگوں کے پاس گئے تو شہر والوں نے انھیں پتھر
مارے۔ مگر پیغمبرِ اسلام نے ان کے لیے یہ کہہ کر خدا سے دعا مانگی کہ یہ لوگ جانتے
نہیں۔
باچا خان کے فلسفے پر سختی سے کاربند اقبال خان نے کہا
کہ سنہ انیس سو ستتّر میں بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک کی، جس میں نیشنل عوامی
پارٹی بھی شامل تھی، باچا خان نے مخالفت کی تھی اور خبردار کیا تھا کہ اس ملک پر
گہرا اندھیرا چھانے والا ہے۔ جو بقول اقبال خان کے ستتّر کے مارشل لا کی صورت میں
ظاہر ہوا۔
اپنے بیٹے مشال خان کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ وہ
صوفی سوچ کا پرچار کرنے والے، علم دوست اور کتاب دوست تھے۔
اقبال خان کے بقول مشال خان خود کو بشر دوست یا انسان
دوست کہتے تھے۔
اقبال خان کا کہنا تھا کہ مشال خان نے مرنے سے کچھ وقت
پہلے پشتو زبان میں فیس بک پر پوسٹ کی تھی کہ 'اگر میرے قتل میں تمھارے بچوں کا
رزق رکھا ہے تو بچوں کا پیٹ بھرو، مگر یہ سن لو کہ کافر نہیں ہوں۔'
انھوں نے بتایا کہ موت سے پہلے مشال کے الفاظ تھے کہ
'تم میرے وجود کو مار سکتے ہو لیکن میری فکر، نظریے اور شعور کو نہیں مار سکتے۔'
بشکریہ بی بی سی اردو