ضیغم قدیر
یہ ہیضے کی اک نئی قسم ہے۔جس کی دریافت 2007ء میں فیس بک نامی
وائرس کے ذریعے ہوئی اور اس کے بعد یہ بیماری ٹوئٹر اور انسٹاگرام جیسی سائٹس سے
بھی پھیلنا شروع ہوگئی۔ اس ہیضے کی اب تک دو اقسام دریافت ہوچکی ہیں، پہلی قسم کا
نام علمی ہیضہ ہے اور دوسری کا نام عملی ہیضہ ہے۔
تفصیلات کے مطابق پہلی قسم کے ہیضے کا مریض شدید قسم کے دست کا شکار ہوتا ہے۔ وہ
چاہے ابا جی سے نئی گالی ہی سیکھ لے یا پھر کسی سے اپنی بے عزتی ہی کیوں نہ
کروالے، اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اگر وہ پوسٹ نہ کرے تو
اس کے پیٹ سے کئی قسم کی آوازیں آنا شروع ہوجاتی ہیں اور اسے چین نہیں ملتا۔
جبکہ دوسری قسم یعنی عملی ہیضے کے مریضوں کی حالت بھی ایسی ہی ہوتی
ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ علمی ہیضے کے مریض کچھ اچھا بھی لکھ کر پوسٹ کردیتے ہیں۔
مگر عملی ہیضے کے مریض اپنے تھوبڑے شریف کو ہی پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔پھر چاہے وہ
باتھ روم میں ہی عکس بند کیا گیا ہو۔ دونوں قسم کے ہیضوں کا وقتی علاج بھی
دریافت ہو چکا ہے۔ "ڈاکٹر ضیغم" کی ایک تحقیق کے مطابق دونوں قسم کے
ہیضوں کا وقتی علاج "لائیکس اور کمنٹس" کی تعداد کم کر کے کیا جاسکتا
ہے۔
اگر لائک اور کمنٹس کی تعداد کو صفر کردیا جاۓ تو
یہ دونوں قسم کے ہیضے مستقل بھی ختم ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر ضیغم صاحب نے مزید بتایا ہے
کہ ان ہیضوں کا بر وقت علاج نہ کرنے کی صورت میں دانشوری نام کی دائمی بیماری لگنے
کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ مزید تفصیلات بتاتے ہوۓ ڈاکٹر
ضیغم صاحب نے انکشاف کیا کہ اس قسم کے دائمی ہیضے کے ساتھ بندے کو بواسیر بھی ہو سکتی
ہے اور یہ فکری بواسیر "بلاک" اور "اَن فرینڈ" جیسے قبیح دردوں
کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
تمام جملہ عارضی و دائمی مریضوں سے درخواست کرتے ہوۓ ڈاکٹر
صاحب نے کہا ہے کہ وہ اس بیماری کا جلد از جلد علاج کروائیں۔ ورنہ اگر یہ مرض دانشوری
کی حد تک پہنچ گیا تو لا علاج بھی ہوسکتا ہے اور آپ کو "دبڑدوس" جیسا دانشور
بنا سکتا ہے۔
نوٹ: تمام بچوں کو دانشوروں کی فیس بک وال سے دور رکھیں۔طبیعت
زیادہ خراب ہو تو اکاؤنٹ ڈس ایبل کردیں۔شکریہ
بشکریہ دلیل