چیف
جسٹس ثاقب نثار (فائل فوٹو
ویمنز ایکشن فورم کے علاوہ خواتین وکلا کی ایک نمائندہ
تنظیم کی طرف سے بھی چیف جسٹس کے ان الفاظ پر ناراضی کا اظہار کیا جا چکا ہے۔
اسلام آباد :خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ایک
تنظیم نے پاکستان کے چیف جسٹس سے اپنی ایک تقریر میں استعمال کیے جانے والے متنازع
قول کو صنفی امتیاز سے تعبیر کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور ان سے کھلے عام
پاکستانی خواتین سے معذرت کا مطالبہ کیا ہے۔
ویمنز
ایکشن فورم کراچی کی طرف سے چیف جسٹس ثاقب نثار کے نام لکھے گئے ایک کھلے خط میں
ان سے معذرت کرنے کے ساتھ ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس قانونی شعبے
اور عدلیہ میں خواتین کے خلاف روز بروز بڑھتے ہوئے صنفی امتیاز اور ان شعبوں میں
خواتین کی نمائندگی ضرورت سے کم ہونے کو بھی تسلیم کریں اور اس پیشے سے وابستہ
خواتین کے لیے ہراس سے پاک ماحول فراہم کرنے کے لیے فوری اقدام کریں۔
رواں
ماہ کراچی میں جوڈیشل کانفرنس کے دوران چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں سابق برطانوی
وزیراعظم ونسٹن چرچل سے منسوب ایک مشہور قول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں
ہمیشہ یہ بتایا گیا ہے کہ تقریر خاتون کے اسکرٹ کی طرح ہونی چاہیے جو نہ اتنی لمبی
ہو کہ دلچپسی ہی نہ رہے اور نہ اتنی مختصر کہ مقصد ہی سمجھ میں نہ آئے۔
ویمنز
ایکشن فورم کے علاوہ خواتین وکلا کی ایک نمائندہ تنظیم کی طرف سے بھی چیف جسٹس کے
ان الفاظ پر ناراضی کا اظہار کیا جا چکا ہے۔
جسٹس
ثاقب نثار کے اس بیان پر سوشل میڈیا میں بھی خاصی لے دے ہوتی رہی ہے اور چیف جسٹس
سے معافی مانگنے کے مطالبات کیے جاتے رہے ہیں۔
ویمنز
ایکشن فورم نے اپنے کھلے خط میں کہا ہے کہ ملک کی عدلیہ کی اعلیٰ ترین شخصیت کی
طرف سے اس طرح کی بات خواتین کے لیے دل گرفتگی کا باعث ہے۔
حقوقِ
نسواں کی سرگرم کارکن طاہرہ عبداللہ کہتی ہیں کہ خواتین سے متعلق کوئی بھی بات
چاہے وہ ازراہِ تفنن بھی ہی کیوں نہ کی گئی ہو اگر اس سے ان کی دل آزاری ہوتی ہے
تو وہ کسی صورت میں قبول نہیں کی جانی چاہیے۔
منگل
کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ قول شاید دہائیوں پہلے کے
ماحول میں قابلِ قبول ہو لیکن 2018ء میں اس طرح کی بات خواتین برداشت نہیں کر
سکتیں۔
"ترقی
صرف سڑکوں، پلوں، پانی، بجلی اور گیس کے آجانے سے نہیں ہوجاتی۔ انسان کی سوچ کو
بھی تبدیل ہو کر روشن خیال ہونا چاہیے۔۔ میں اپنی ذاتی حیثیت میں بات کرتی ہوں کہ
کوئی بھی ہو بڑی سے بڑی شخصیت ہو اگر ان کے منہ سے ایسے الفاظ یا جملے نکل رہے ہیں
جو کہ 60، 70 سال پہلے تو قابلِ قبول ہوں گے لیکن ہم اپنے وقت میں اس کو سیاق و
سباق میں دیکھتے ہیں۔ آج اس طرح کی بات کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں بلکہ اس کی
شدید مذمت کی جاتی ہے۔"
طاہرہ عبداللہ نے کہا کہ دنیا میں ایسے بہت سے الفاظ
ہیں جو دہائیوں پہلے مغربی دنیا میں عام طور پر تضحیک کے لیے بولے جاتے تھے لیکن
اس دور میں انھیں نہ صرف معیوب سمجھا جاتا ہے بلکہ ان کا استعمال امتیازی رویے کے
زمرے میں بھی آتا ہے۔
بشکریہ اردوVOA