عاصمہ جہانگیر اور اس کے قبیلے کے لیے ایک نظم


ڈاکٹر فاخرہ  نورین


اسے جنت تو کیا مل پائے گی
جنت میں ایسی عورتوں کو
داخلے کی کب اجازت ہے
نہ اس کی پنڈلیاں شفاف ایسی تھیں کہ ان میں سے گزرتا خون
گرماتا لہو شریانِ مردہ کا
نہ اس نے وہ گلا پایا کہ رگ رگ سےد کھائی دیتا مشروبِ مطہر
پینے والوں میں کوئی ہیجان بھر دیتا
نہ آنکھیں ہی غلافی جن کی پلکیں سایہ بن جاتیں
خدا کے بندگانِ خاص کی خاطر
جو اپنے زہد کے صحراؤں کی لمبی مسافت سے
تھکے،
ٹخنوں تلک پہنی شرع کے بوجھ سے اکتائے
داڑھیوں کے جھاڑ میں خوشبوئے نافہ مَل مَلا کر
قرن ہا سے اس کی خاطر سب لذائذ چھوڑ کر تیار آئیں گے
اسے کب یہ سلیقہ تھا کہ ایسی دلربا ٹھہرے
جسے مردانِ حر کی خواہشِ نامختتم تسکین کرنے کی ہزاروں سال تک کی عمر بھی کم ہو
وہی مردانِ حر جواس کی چاہت میں
جہانِ فان کی کم ذات، ناقص عقل کی مخلوق کو پیروں کی جوتی مانتے،
اور اس کے شر سے بچ نکلنے کی دعائیں یا دکرتے رہ گئے
جن کوہمیشہ وجد میں رکھتی تھی
امیدِ بکارت وہ بھی ایسی جو انھیں ہر بار پہلی سی محبت دان کردے گی
اسے نسبت ہی کیا ان سے
وہ جن کا دھڑ زیادہ بولتا ہو، کاسہ ءسر کھنکھناتا ہو
زباں کم بولتی ہو اور بولے بھی تو میٹھے بول ہوں
شہوت بھری، بے تاب لذت کی بہت دلدادگی ہو،
سر بسرحرفِ تلذذہو،
بھلا ملعون عورت کس طرح جنت کی خوشبو سونگھ پائے گی
روایت ہے کہ ایسی عورتیں ہوں گی جہنم کے کسی تاریک تر گہرے گڑھے میں
اور ان کے گرد اپنی ہی زباں لپٹے گی
گویا لپلپاتی آگ کی صورت
خدایا! ایسی عورت کے لیے بس اتنا کر دینا
اسے جیسے، جہاں رکھنا
مگر اس کی زباں رکھنا
اسے رکھنا تو اس کے جیسیوں کے درمیاں رکھنا


بشکریہ ہم سب