کیسے مردوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر گلے کو دبا کر تعفن اگلتے ہوئے گندے نالوں میں لڑھکاتی، یادور کھیتوں میں اور کوڑے دانوں میں پھینک آتی ہیں سنگ دل سارے منظر کو اک آن میں بھول کر آگے بڑھ جاتی ہیں بے حیا عورتیں فاحشہ عورتیں ان کی رالیں ٹپکتی ہیں معصوم جسموں کو گر دیکھ لیں مرد،عورت ہویا کوئی خواجہ سرا اپنی وحشت کی تسکین کے واسطے عمر، رنگت، قبیلے یا طبقے کا کچھ مسئلہ ہی نہیں جان سے مار دینا بھی مشکل نہیں بلکہ قبروں میں تازہ دبی لاشوں کو نوچنے میں انہیں ہچکچاہٹ نہیں یہ بلا عورتیں وحشیہ عورتیں اپنی غی…
ہاں میں اِک بے حیا عورت ہوں اور وہ مجسّم پارسائی ہے وہ جو ستر لبادوں میں چُھپے حورروں کے ننگے جسم کے نشیب وَ فراز دیکھتا ہے پستانوں کی گولائیاں ناپتا ہے سڈول ٹانگوں کے قصّے سُناتا ہے شیطانی مُسکراہٹ لبوں پہ سجائے ٹانگوں کے درمیاں ہونے والی الف لیلٰی سُناتا ہے سامنے بیٹھے مدقوق وحشت زدہ چہروں کی شہوت بڑھاتا ہے جو دودھ اور شہد سے گُندھی حور کے بدن کی حلاوت دکھاتا ہے مُشک و عنبر میں رچے جسم کے فسانے سُناتا ہے وہ پارسا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بے حیا عورت ہوں! مشقت کی چُکی میں پسے بدبودار پسینوں …
مجھ سے مت کہو کہ تم میرا دکھ سمجھتے ہو کیا تم نے بھی اپنا بچہ کھویا ہے ؟ (اگر نہیں تو تم میرا دکھ جان ہی نہیں سکتے) مجھ سے مت کہو کہ میرا ٹوٹا ہوا دل پھر جڑ جائے گا کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں مجھ سے مت کہو کہ میرا بیٹا ایک بہتر جگہ پر ہے یہ سچ ہوگا مگر میں اسے یہاں اپنے پاس چاہتی ہوں مت کہو کہ کسی دن میں دوبارہ اس کی آواز سن سکوں گی اسے دیکھ سکوں گی میں آج سے آگے کچھ نہیں دیکھ سکتی مت کہو کہ اب آگے بڑھ جانے کا وقت ہے آگے بڑھنا میرے اختیار میں نہیں ہے مت کہو کہ مجھے یہ حقیقت مان لینی چاہئے کہ وہ اب یہاں نہیں …
تحریر: اکرم بلوچ کراچی آرٹس کونسل میں منعقد ہونے والے بارہویں عالمی اردو کانفرنس میں بڑے پیمانے پر چار روز تک ایک میلے کا سا سماں بندھا ہوا تھا یہ رنگا رنگ کانفرنس دنیا بھر سے آئے ہوئے مہمان ادیبوں صحافیوں مزاح نگاروں گلوکاروں سے مزین تھی جس میں مختلف سیشنز رکھے گئے تھے کانفرنس کی انفرادیت یہ تھی کہ پہلی اردو کے ساتھ ساتھ پشتو، سندھی، پنجابی، سرائیکی اور بلوچی سیشنز کے انعقاد کو یقینی بنایا گیا تھا بلوچی سیشن میں موضوع "دبستان اردو اور بلوچ شعرا" میں بلوچ قوم کی نمائندگی بہت ہی اعلیٰ معیار سے کی گئی معروف عوامی شاعر وحید نور ہوں ی…
ڈاکٹر خالد سہیل وہ ایک صبح اپننے اخبار کے دفتر نہیں آیا اور اس کی باتوں‘ قہقہوں اور آدرشوں کے بغیر سارا دفتر اداس ہو گیا دوستوں نے فون کیے ’ ٹیکسٹ مسیجز بھیجے ’ فیس بک پیغام بھیجے کوئی جواب نہ آیا چند گھنٹوں میں یقین ہو گیا کہ وہ پراسرار طریقے سے غائب کر دیا گیا تھا چہ مگوئیاں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھنے لگیں وہ حکومت پر بہت تنقید کرتا تھا وہ آمروں کو للکارتا تھا وہ عوام کے حقوق کی بات کرتا تھا وہ جمہوریت کا شیدائی تھا وہ نڈر اور بے خوف تھا اسے کئی دوستوں نے سمجھانا چاہا تھا لیکن اسے کچھ سمجھ نہ آیا تھا یا اس نے سب کچھ سمجھ آ جانے کے باوجود ت…
رمشاء اشرف انگریزی زبان و ادب کی استاد اور بذات خود شاعرہ بھی ہیں۔ اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ ان کی نظم انگریزی میں لکھی گئی ہے جس کا آزاد ترجمہ یہاں دیا جارہا ہے۔ بلوچ انگلیوں نے پہچان لیا خون بہانے کے طریقہ واردات کو جس کے نشان خاموش دیوار پہ پائے گئے اک لاپتا بلوچ اک مقتول بلوچ اک غدار بلوچ اک بلوچ جو ہے غدار بلوچ جو ہوسکتا ہے غدار جواب میں : اس کی بیٹی سڑک پہ احتجاج کرتے پائی گئی ایک پلے کارڈ کے ساتھ جس پہ لکھی ہیں باتيں ایسی چھے سال کی عمر میں ان کی اسے سمجھ بھی نہیں تم اپنے گھروں میں سان…
Social Plugin