عالمی اردو کانفرنس اور بلوچ شعرا



تحریر: اکرم بلوچ



 کراچی آرٹس کونسل میں منعقد ہونے والے بارہویں عالمی اردو کانفرنس میں بڑے پیمانے پر چار روز تک ایک میلے کا سا سماں بندھا ہوا تھا یہ رنگا رنگ کانفرنس دنیا بھر سے آئے ہوئے مہمان ادیبوں صحافیوں مزاح نگاروں گلوکاروں سے مزین تھی جس میں مختلف سیشنز رکھے گئے تھے کانفرنس کی انفرادیت  یہ تھی کہ پہلی اردو کے ساتھ ساتھ پشتو، سندھی، پنجابی، سرائیکی اور بلوچی سیشنز کے انعقاد کو یقینی بنایا گیا تھا  بلوچی سیشن میں موضوع "دبستان اردو اور بلوچ شعرا" میں بلوچ قوم کی نمائندگی بہت ہی اعلیٰ معیار سے کی گئی معروف عوامی شاعر وحید نور ہوں یا ماہر لسانیات ڈاکٹر غفور شاد ہوں کہ شاعری،  افسانے اور ناول کے بڑے نام پروفیسر اے آر داد ہوں یا براہوی و اردو ادب کے معتبر نام افضل مراد ہوں اور نظامت کے فرائض انجام دینے والے اردو بلوچی کے منفرد شاعر عمران ثاقب ہوں، ان تمام دوستوں نے ایک سیرحاصل اور معیاری گفتگو سے حاضرین کو پورے سیشن میں اپنی گرفت میں رکھا، بلوچی سیشن میں نورالہدیٰ شاہ،  حارث خلیق، احمد شاہ اور حامد میر بھی جلوہ گر رہے سیشن کے آخری حصے میں تمام شرکا نے اپنی نظمیں پیش کیں اور نہ صرف شرکاء سے خوب داد وصول کیا بلکہ حامد میر جیسے قد آور سینئر صحافی کو اس حد تک متاثر کیا کہ وہ اس کا اظہار آج تک کرتے نظر آتے ہیں۔
اس سیشن کے بعد حامد میر اور عاصمہ شیرازی کا سیشن آرٹس کونسل لان میں ہوا جس میں حامد میر بلوچ شعرا کے سیشن پر ہی محو گفتگو کرتے رہے اور بار بار عمران ثاقب کی غزل کا حوالہ دیتے رہے اور کہا کہ مَیں نے عمران ثاقب سے جب سیشن کے بعد کہا کہ "یہ شاعری وفاقی وزیر شفقت محمود کو بھی ذرا سنا دیں تو جب عمران نے سنائی تو ایک شعر پہ شفقت محمود نے وااہ کہا تو میں نے احمد شاہ صاحب سے کہا دیکھیں شاہ صاحب شفقت صاحب بھی واہ واہ کرگئے، شاہ صاحب نے کہا یہ پہلے ہمارے بندے تھے اب دوسری طرف چلے گئے ہیں ہم دوبارہ ان کو واپس لانے کی کوششوں میں ہیں". مَیں کئی صحافی اور ادیبوں سے ملا تو وہ اے آرداد اور غفور شاد صاحب کی گفتگو کے سحر میں تھے،  وحید نور نے کراچی کے ہم عصر شعرا کا کلام پیش کیا جس کی کافی پذیرائی ہوئی اور افضل مراد صاحب نے بلوچ شعرا کی تاریخ میں براہوی شعرا کے بے مثال شراکت پہ معلومات فراہم کیں.
اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ دوسرے دن کا سیشن بلوچ شعرا کے سر رہا اور چار روزہ کے کامیاب ترین سیشنز میں سے ایک ہمارے یہ بلوچ شعرا رہے جو یقیناّ اتنے بڑے عالمی کانفرنس میں قابل رشک اور افتخار کی بات ہے.
یہاں یہ بتانا بھی ضروری سمجھوں گا کہ کوئٹہ میں رہنے والا ایک خودساختہ دانشور سے بلوچ سیشن کی یہ بہترین نمائندگی ہضم نہ ہوئی تو اس نے سب سے پہلے سوشل میڈیا میں بلوچی براہوی کے نفاق کی سازش رچ دی اور وہ آگ آرٹس کونسل فیسبک پیج تک پہنچا دی لیکن جب پذیرائی سے زیادہ پشیمانی ان کے حصے میں آئی تو خاموشی کو ترجیح دینے کے بجائے جب عالمی اردو کانفرنس میں بلوچ ادیب اور شعرا کے حصے میں پذیرائی اور کامیابی  آئی تو وہ  مزید ذہنی پستی میں مبتلا ہوئے اور انھوں نے ایک دوست کی پوسٹ پر عالمی اردو کانفرنس میں اپنی شاعری کا لوہا منوانے والے عمران ثاقب کے خلاف زہر آلود پروپیگنڈا شروع کیا لیکن انھیں یہاں بھی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا براہوی/بلوچ کے نفاق کی سازش افضل مراد جیسے تجربہ کار براہوی بلوچ ادیب کی کاوش اور کوششوں سے ناکام ثابت ہوا جبکہ عمران ثاقب کے خلاف شروع کیا جانے والا لغو پروپیگنڈا بھی دم توڑ گیا ہمیں فخر ہے اپنے ان شعرا، ادیبوں اور دانشوروں پر جنھوں اردو کے عالمی کانفرنس میں بلوچ قوم کا نام روشن کیا.