بلوچ -رمشاء اشرف


رمشاء اشرف انگریزی زبان و ادب کی استاد اور بذات خود شاعرہ بھی ہیں۔ اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ ان کی نظم انگریزی     میں لکھی گئی ہے جس کا آزاد ترجمہ یہاں دیا جارہا ہے۔



بلوچ
انگلیوں نے پہچان لیا
خون بہانے کے طریقہ واردات کو
جس کے نشان خاموش دیوار پہ پائے گئے
اک لاپتا بلوچ
اک مقتول بلوچ
اک غدار بلوچ
اک بلوچ جو ہے غدار
بلوچ جو ہوسکتا ہے غدار
جواب میں:
اس کی بیٹی سڑک پہ احتجاج کرتے پائی گئی
ایک پلے کارڈ کے ساتھ جس پہ لکھی ہیں باتيں ایسی
چھے سال کی عمر میں ان کی اسے سمجھ بھی نہیں
تم اپنے گھروں میں سانپوں کو دودھ پلاتے ہو
اپنی رجمنٹوں میں بھیڑیوں کو سدھاتے ہو
اور تم لاجواب ہوتے ہو
معصوم عورتوں کے سوالوں کے سامنے
اور کٹے پھٹے جسموں میں بدلے مردوں کے سامنے
تو تم ان کو مختلف نام دیتے ہو
تم ان پہ غدار کا ٹیگ لگادیتے ہو
تم مرتے بھی نہیں ہوں
ایک جنم کے بعد دوسرا جنم لیتے ہو
بے ضمیری کے ساتھ
بے رحمی کے ساتھ
میں ششدر ہوکر سوچتی ہوں
کیا کبھی تم احساس کرپاؤگے
کتنا خون ہے جو تم نے ابتک بہاچکے ہو؟
شاعرہ:رمشاء اشرف
ترجمہ: عامر حسینی


Baluch – Poem
Fingers dubbed
the blood pattern traced
on the silent wall

a Baluch missing
a Baluch killed
a Baluch traitor
a traitor Baluch
a Baluch who is traitor
the Baluch who could be a traitor…

In answer:
his daughter protested on the road
with a placard which said the things
she can’t even understand at six…

you feed snakes at your home
you train wolves in your regiments
and when left with no answers
to the questions of innocent women
and the left-over-pieces of men
you call them names
you tag them traitors
you don’t even die
rebirth after rebirth
with no conscience
with no sympathy

?I wonder if you could ever see the pool of blood you’ve gathered under you bed