فلم ٹائیگرز: ایک پاکستانی سیلز مین کی سچی کہانی نیسلے پاکستان کے مبینہ جرائم کو بے نقاب کرتی ہے


پاکستانی فلم انڈسٹری ‘جوانی پھر نہیں آنی’ جیسی فلمیں بنانے میں مصروف اور آئی ایس پی آر فیشن شو کرانے میں مصروف ہیں تو ادھر ہندوستان نے ایک بار پھر جرات مندانہ قدم اٹھایا ہے۔ اس نے ایک ایوارڈ یافتہ ایسی فلم کی نمآئش کی اجازت دی ہے جس کی کہانی ایک سچے واقعے پہ مشتمل ہے جس کا تعلق سیالکوٹ کے سید عامر رضا سے ہے۔ جو سات سال تک نیسلے پاکستان کی بے بی پروڈکٹس انڈسٹری میں غیر منصفانہ اقدامات کے خلاف لڑتا رہا جس نے پاکستان میں ہزاروں شیر خوار بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور ہزاروں کو بدترین غذائی کمی سے پیدا بیماریوں کا شکار ہوئے۔
نیسلے کے جرائم کا پردہ فاش کرنے والے سید عامر رضا حسین اب کینڈا کے شہری ہیں اور وہاں پہ ٹیکسی چلاتے ہیں۔ ان کی زندگی میں بدلاؤ اس وقت آیا جب وہ نیسلے کے فارمولہ سیلزمین کے طور پہ کام کررہے تھے۔ ان کی اس زندگی پہ بنی ہے فلم ٹائیگرز جس کا مہورت ٹورنٹو انٹرنیشنل فلم فیسٹول میں ستمبر 2014ء میں ہوا اور کئی زبانوں میں یہ فلم اس ماہ نومبر میں زی فائیو انڈیا نے ریلیز کردی ہے۔ لیکن ابتک اس فلم کی تقسیم کے حقوق پاکستان میں کسی ڈسٹریبیوٹر نے حاصل نہیں کیے ہیں۔
فلم ٹائیگرز کو اکیڈیمک ایوارڈ یافتہ بوسنیا کے ڈینس ٹانوک نے لکھا ہے اور ان کے ساتھ فرنچ اور انڈین پروڈکشن ہاؤس نے اسے پروڈیوس کیا ہے۔
سید عامر رضا نے بتایا ہے کہ کیسے نیسلے ہڈیوں کے امراض کے ڈاکٹروںاور نرسوں کو تحائف کی رشوت دیکر ان سے توقع کرتی ہے کہ وہ ماؤں کو نیسلے کی بے بی پروڈکٹ کے استعمال پہ راضی کریں گے۔ یہ ایسی پروڈکٹ ہیں جس سے بچوں کے چہرے  سکڑ جاتے ہیں اور بازو مڑ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر اور نرسیں ماؤں کو بچوں کو اپنا دودھ پلانے پہ اصرار کرنے کی بجائے نیسلے کے تیار کردہ بے بی ملک کو پلانے پہ اصرار کرتے ہیں جو گندے پانی سے تیار ہوتا ہے جس تک 44 فیصد پاکستانیوں کی رسائی ہے۔
سید عامر رضا نے اس طرح کے جرائم کو بے نقاب کرنے کی پوری کوشش کی جس کے سبب اسے متعدد بار ڈرایا دھمکایا گیا اور اسے آخرکار 2000 میں جرمنی فرار ہونا پڑا، وہاں سے اسے برطانیہ اور آخرکار 2004ء میں اسے کینڈا میں پناہ ملی، جہاں 6 سال بعد اسے شہریت ملی اور اب وہ وہیں رہتا ہے۔
نیسلے کے خلاف 80ء اور 90ء کی دہائی میں کافی چیزیں سامنے آئیں۔ نیسلے کی مرتاض انانیت پسندی، منافع کی بے پناہ ہوس پہ مبنی معاشی سرگرمیاں، غریب ملکوں میں نئی ماں بننے والی عورتوں سے غیر انسانی طور پہ اپنے بچوں کو اپنا دودھ پلانے سے چھڑوانے اور اپنی پروڈکٹس کے استعمال کرنے پہ مجبور کرنے کے ہتھکنڈوں پہ کافی لے دے ہوئی تھی۔
وہ نرسوں کے لباس میں ملبوس عورتیں ہماری عورتوں تک بھیجتے جو ان عورتوں کی غلط کونسلنگ کرتی تھیں اور ان کو بتاتی تھیں کہ نیسلے کے بچوں کے لیے تیار کردہ دودھ میں ضروری معدنیات، وٹا من شامل ہیں اور ان کو کہتیں کہ یہ فارمولہ دودھ چھاتی کے دودھ سے کہیں زیادہ بہتر ہے اور کہتیں کہ امیر ملکوں میں مائیں اپنے بچوں کو یہی دودھ پلاتی ہیں۔۔۔ اور دیکھو اب ان کے لیے کیا بڑھیا چیزیں ہیں۔۔۔وغیرہ وغیرہ
آج کے زمانے میں آٹھ لاکھ 30 ہزار شیر خوار بچے ہر سال بریسٹ فیڈنگ کی کمی کے سبب مرجاتے ہیں۔ اور یہ 1970ء سے ہورہا ہے۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ ایک سال میں ایک لاکھ بچے مرتے ہیں اور یہ 1970ء سے شروع ہو اور 2000 میں ختم ہو تو اس کا مطلب یہ ہے 30 سالوں میں 30 لاکھ بچے مارے گئے۔(سن 2000ء میں عامر رضا نے نوکری چھوڑی تھی)
 
یہ سید معاذ حسن کی فیس بک وال پہ تحریر کا ترجمہ ہے۔