ڈاکٹر خالد سہیل
وہ ایک صبح اپننے اخبار کے دفتر نہیں آیا
اور اس کی باتوں‘ قہقہوں اور آدرشوں کے بغیر
سارا دفتر اداس ہو گیا
دوستوں نے فون کیے ’ ٹیکسٹ مسیجز بھیجے ’ فیس بک پیغام بھیجے
کوئی جواب نہ آیا
چند گھنٹوں میں یقین ہو گیا کہ وہ پراسرار طریقے سے غائب کر دیا گیا تھا
چہ مگوئیاں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھنے لگیں
وہ حکومت پر بہت تنقید کرتا تھا
وہ آمروں کو للکارتا تھا
وہ عوام کے حقوق کی بات کرتا تھا
وہ جمہوریت کا شیدائی تھا
وہ نڈر اور بے خوف تھا
اسے کئی دوستوں نے سمجھانا چاہا تھا
لیکن اسے کچھ سمجھ نہ آیا تھا
یا اس نے سب کچھ سمجھ آ جانے کے باوجود تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا تھا
لیکن کیا وہ زندہ تھا
یا اسے پراسرار طریقے سے قتل کر دیا گیا تھا
اور اس کی لاش کو کسی انجانے مقام پر دفنا دیا گیا تھا
جب دوست اس کے کمرے میں گئے
تو اس کا بستر اس کے کپڑے اور اس کی کتابیں
سب بے ترتیب تھیں
اور ایک تصویر غائب تھی
اس کی میز پر فریم شدہ چے گوارا کی تصویر
اس تصویر کے غائب ہونے کا کیا راز تھا
کوئی نہیں جانتا تھا
اس کے اخبار میں پیغام چھپنے لگے
پہلے اس کی بیوی کا
پھر اس کے پرستاروں کا
اس اخبار کے مدیرِ اعلیٰ کا
پھر جرنلسٹوں کی یونین کے صدر کا
جس نے اپنے اداریے میں پوچھا تھا
قلم اور قوم کا کیا رشتہ ہوتا ہے؟
ایک دن گزر گیا
ایک ہفتہ گزر گیا
ایک مہینہ گزر گیا
چاروں طرف خاموشی تھی طویل خاموشی
اور پھر ایک دن
وہ جس پراسراریت سے غائب ہوا تھا
اسی پراسراریت سے واپس لوٹ آیا
لیکن ایک فرق کے ساتھ
اس کی آنکھوں کے چراغ بجھ چکےتھے
دل مرجھا چکا تھا
روح مغموم ہو چکی تھی
واپسی کے بعد وہ جب تک زندہ رہا
جو کہ زیادہ عرصہ نہیں تھا
ایک طویل خاموشی اسے گھیرے رہی
نہ اس نے ایک لفظ لکھا
اور نہ وہ ایک لفظ بولا
وہ سراپا خاموشی بن چکا تھا
جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوا
تو اس طویل خاموشی کا راز
اپنے ساتھ اپنی قبر میں لے گیا