غزالہ نقوی
میں نے ہنستے ہوئے اپنے دوست کو ڈپٹتے ہوئے کہا، ”تمہاری بیوی ہے، تم اس کی عزت نہیں کرتے؟ “
اس نے بہت سنجیدگی سے مجھے دیکھ کے کہا، ”میں اس کی عزت کیسے نہیں کروں گا یہی تو میری عزت ہے“۔
میں اور اس کی بیوی جو یونہی مذاقاً مجھ سے میاں کو ڈانٹ پڑوانا چاہ رہی تھی، ایک لمحے کو چپ رہ گئے۔ ہمارے مذاق نے اسے سنجیدہ کر دیا۔
وہ شاعر و ادیب ہے۔ اس کے دل کو ہی لگ گئی میری بات۔ دھیمے سنجیدہ اور سچے لہجے میں اس نے مزید کہا، ”جس دن میں نے اس کے عزت نہ کی، میری نظر میں میری اپنی کوئی عزت نہیں رہے گی“۔
میں کیا کروں کہ میں نے اپنے اطراف نہ صرف ایسے مرد دیکھے بلکہ ایسی ساسیں بھی جو بیٹوں سے کہتی تھیں کہ اگر میری بہو کو ستایا تو روزِ محشر دودھ نہیں بخشوں گی، اس کے ماں باپ نے تمہیں نہیں ہمیں اپنی بیٹی سونپی ہے، ہم گئے تھے پیام لے کے! ”شاید بہت سوں کو یہ ساس کوئی خیالی کردار معلوم ہوں لیکن یہ میری اپنی نانی اماں کے الفاظ ہیں جو میں نے بچپن میں خود کئی بار سنے ہیں۔
تو جناب اج کل گھریلو تشدد خصوصاً بیوی پے ہاتھ اٹھانے کے واقعات سامنے ارہے ہیں۔ حقوقِ نسواں کی بات کرنے والے ادارے اور عوام الناس یکساں طور پے اس کی مذمت بھی کر رہے ہیں۔ لیکن اج بھی کہیں کہیں اس محاورے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے جو یہی نانی اماں ہمیں بھی کرتی تھیں، ”بالی، عورت کی زبان چلتی ہے تو مرد کا ہاتھ چلتا ہے“ یعنی ہمیں یہی تربیت دی گئی کہ کچھ ہو جائے۔ اُف نہ کرو۔ تو شکر ہوا کہ گھر کی عورتوں نے ”اُف“ نہ کی اور اس احسان کی بدولت ہمارے مرد ”تُف“ سے محفوظ رہے۔
بات یہ نہیں کہ اس معاشرے میں اچھے شوھروں کی کمی ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ ہمیں اچھی ماؤں کی ضرورت ہے جو اپنے بیٹوں کو اچھا انسان بنا سکیں۔ جب تک مرد اپنی ماں اور بہن کی گالی سن کے دھکتا انگارہ اور دوستوں میں اپنی بیوی کا خیال رکھنے کے بجائے اس کو سہما کے قابو میں رکھنے کے قصے سنا کے ”شیر کا بچہ“ بننا چاھے گا، اس وقت تک یہ تشدد ہوتا رہے گا۔
زیادہ سنگین واقعات بھی دیکھنے سننے کو ملتے ہیں جہاں اج کی صاحباں کے بھائی اپنی غیرت یا بے غیرتی، لالچ یا مفاد کے ہاتھوں انہیں مار کے فخریہ دفناتے ہیں اور کھلے عام دندناتے ہیں۔
اِن روایات کو ختم کرنے کے لئے باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہے۔ غیرت کے نام پے قتل (چاھے بہن کا ہو یا بیوی کا) ، قتلِ عمد قرار دیا جائے، اس مجرم کو کسی اعلی عدلیہ میں رحم کی اپیل کی اجازت ہو نہ ہی والدین کو قاتل کو معاف کرنے کا اختیار، سرکار خود مدعی ہو اور جرم ثابت ہونے کہ بارہ گھنٹے کے اندر پھانسی دی جائے۔ اگر یہ قانون نافذ ہوگیا اور اس کے پانچ کیسز میں بھی ایسے فیصلہ اور اس پے عملدرآمد بھی ہو گیا تو یقین جانئیے۔ مرد خود اپنی غیرت کو قابو میں رکھنا سیکھ لیں گے۔
بیوی پیر کی جوتی ہے۔
جوتی کو سر پے نہیں رکھتے۔
پرانی ہو تو نئی لے آتے ہیں۔
عورت کم عقل ہے۔
عورت فساد کی جڑ ہے۔
عورت تو نبیوں کی بیوی ہو کے نافرمان رہی۔
عورت پے سخت نگاہ رکھو ورنہ گمراہ ہونے میں دیر نہیں لگائے گی۔
میری ماں اور بہنیں میری بیوی سے کہیں عظیم و اعلی ظرف ہیں۔
یہ سوچ مائیں ہی ان بچوں کے ذہنوں میں ڈالتی ہیں جنھیں بعد میں کسی کے شوھر۔ نہیں نہیں۔ ”مجازی خدا“ کا رتبہ عطا ہو گا۔ وا تُعزُ من تشاء!
اگر اپنی بیٹیوں کو ازدواجی زلت، چار چوٹ کی مار، ذہنی و جذباتی ازیت سے بچانا ہے تو اج کی نئی ماؤں کو اپنے بیٹوں کو سکھانا پڑے گا کہ صرف ماں کی نہیں ہر رشتے میں عورت کی عزت کریں اور ہمت ہو تو اپنی ماں کو بھی ایک عورت، ایک انسان سمجھنے کی کوشش کریں۔
مرد یا تو سخت گیر ہے یا از خود گھر کی تمام عورتوں کا رکھوالا بن جاتا ہے۔ بیچاری امی! بیچاری تمہاری بھابی! بیچاری اپا! اسے لگتا ہے کہ وہ نہ ہوتا تو ان میں سے ایک بھی اپنی دنیا نہ بنا پاتی بلکہ ظالم بھیڑیئے اسے بھنبھوڑ جاتے۔ مدعا یہ ہے کہ یہ بھیڑیئے بھی آسمان سے نہیں اترتے یہیں اسی معاشرے میں انہیں ”بیچاری امیوں“ کے پروان چڑھائے سپوت ہیں! اپنی خاندان کی عورت کے یہ محافظ اس کے علاوہ ہر دوسری عورت کے لئے بھیڑیئے کی خُو رکھتے ہیں اور اس کا اگر کوئی ذمہ دار ہے تو وہ ہے خود ان کی ”ماں“!