ہاں میں اِک بے حیا عورت ہوں
اور وہ مجسّم پارسائی ہے
وہ
جو ستر لبادوں میں چُھپے
حورروں کے ننگے جسم کے نشیب وَ فراز دیکھتا ہے
پستانوں کی گولائیاں ناپتا ہے
سڈول ٹانگوں کے قصّے سُناتا ہے
شیطانی مُسکراہٹ لبوں پہ سجائے
ٹانگوں کے درمیاں ہونے والی الف لیلٰی سُناتا ہے
سامنے بیٹھے مدقوق وحشت زدہ چہروں کی
شہوت بڑھاتا ہے
جو دودھ اور شہد سے گُندھی
حور کے بدن کی حلاوت دکھاتا ہے
مُشک و عنبر میں رچے جسم کے فسانے سُناتا ہے
وہ پارسا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بے حیا عورت ہوں!
مشقت کی چُکی میں پسے
بدبودار پسینوں سے بھرے
کھیت میں چلچلاتی دھوپ میں ہَل چلاتے
کارخانوں میں مشینوں سے جھونجھتے
روزی کی آس میں سڑک پہ بیٹھے
دِھاڑی دار، مزدور، کسان
جو نانِ جویں کو ترستے ہیں
سب کی توہین کرتا ہے، بے ایمان کہہ کر
کہ
یہ سب تو غریب عورت کے بچے ہیں
وہ پارسا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ۔۔۔۔۔ ایک بے حیا عورت ہوں!
میں سڑی بُسی ہوں
ہاں ہوں!
صبح سے شام تک کھیت میں کام کرتی ہوں
سڑک پہ روڑی کوٹتی ہوں
راتوں کو
سڑے بُسے انسانوں کے جسم کا بوجھ ڈھوتی ہوں
ان کے بوئے بیج پیٹ میں پالتی ہوں
کھیتوں میں بچوں کو جنم دیتی ہوں
اسپتالوں میں سڑے گلے زخم صاف کرتی ہوں
گندگی کو دھوتی ہوں
میں تو بے حیا ہوں!
خطا کار تو ہے، گُناہگار میں ہوں
بد کردار میں ہوں، تو خریدار تُو ہے
میں چادر میں، بُرقعے میں ملبوس ہوں
تو بھی
تیری نگاہیں، تِری انگلیاں
مِرے جسم کو سنگسار کرتی ہیں
روح میں سوراخ کرتی ہیں
میں ٹھہری بے حیا عورت!
وہ، جو درباری ہے!
اور
مگر مچھ کے آنسو بہاتا ہے
حکمرانوں کے گُن گا کر
غریبوں کو عذابوں سے ڈرا کر
مذہب کا کاروبار کرتا ہے
کاسہ لیسی کی قیمت وصول کرتا ہے
وہ پارسا ہے!
کیا اُس نے حجروں میں پامال ہونے والے
معصوم بچوں کی چیخیوں کی قراٌت سُنی ہے!
میں نے سُنی ہے!
میں نے کُچلے ہوئے پھولوں کے
جنازے اُٹھائے ہیں
کہ۔۔۔ میں ایک بے حیا عورت ہوں!