چند روز قبل طارق جمیل صاحب نے ایک سرکاری تقریب میں وزیر اعظم عمران خان صاحب کی موجودگی میں دعا کرائی۔ ماضی قریب میں شاید ہی کسی دعا نے اتنی بحثوں کو جنم دیا ہو جتنی بحثیں اس دعا پر ہو چکی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ دیگر امور کے علاوہ اس دعا میں سچائی پر زور دیتے ہوئے انہوں نے پوری قوم کے جھوٹے ہونے کا ذکر تو کیا لیکن اس کے ساتھ خاص طور پر میڈیا کے جھوٹے ہونے کا ذکر بھی کیا۔ جیسا کہ توقع تھی اور جیسا کہ دنیا بھر میں ہوتا ہے اس میڈیا کے کئی سینیر صحافی صاحبان کی طرف سے رد ِ عمل سننے میں آیا۔
اس پر بغیر کسی توقف کے طارق جمیل صاحب نے معافی مانگ لی۔ اب یہ امید کی جا رہی تھی کہ یہ بحث ختم ہوجائے گی لیکن نہیں۔ ایسا نہیں ہوا۔ بہت سے صحافی حضرات اور خواتین بھی ایک نعرہ مستانہ مار کر میدان میں کود پڑے۔ پہلے مبشر لقمان صاحب اور حسن نثار صاحب نے طارق جمیل صاحب کے دفاع اور میڈیا کی گت بنانے کے لئے بیانات دیے اور مبشر لقمان صاحب نے تو جلالی انداز میں یہ دھمکی بھی دی کہ میں یہاں میڈیا کے پول کھولنے بیٹھ گیا تو میڈیا تو پتہ چل جائے گا۔
لیکن انہوں نے عفو اور درگزر کا مظاہرہ کرتے ہوئے پول نہیں کھولے۔ ورنہ ان کی جلالی آنکھیں دیکھ کر مجھے تو لگ رہا تھا کہ کل تک آدھے چینل اللہ کو پیارے ہو چکے ہوں گے۔ کیونکہ ہماری صحافت کے درخشدہ ستارے اس پر رائے زنی کر رہے تھے اس لئے کوئی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی تھی کہ یہ عاجز اس دنگل میں کود کر اپنی پٹائی کراتا۔ لیکن ”بول“ چینل پر اس بارے میں ایک پروگرام سن کر میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
ستائیس اپریل کو نشر ہونے والے اس پروگرام کی اینکر مکرمہ ڈاکٹر فضہ صاحبہ تھیں اور صحافی صدیق جان صاحب اور ڈرامہ نویس خلیل الرحمن قمر صاحب بطور مہمان شریک تھے۔ اس پروگرام کا لب لباب یہ تھا کہ طارق جمیل صاحب نے اپنی تقریر میں صحافیوں اور میڈیا کے بارے میں جو کچھ کہا تھا، اس کے جواب میں کئی سینیر صحافی حضرات جنہیں مکرمہ فضہ صاحبہ نے نام نہاد دانشور قرار دیا بہت ناشائستہ رد عمل دکھایا ہے۔ اس پروگرام کے چند شائستہ تبصرے ملاحظہ فرمائیں۔
صدیق جان صاحب نے فرمایا کہ یہ آٹھ دس لوگ جو بول رہے ہیں وہ منافق ہیں اور ان کی منافقت بے نقاب ہو چکی ہے۔ انہوں نے لمبی لمبی زبانیں نکالی ہوئی ہیں۔ یہ جو بکواس کر رہے ہیں ان کی گز بھر کی زبانوں کے نیچے جو گریبان ہے اس میں جھانک کر دیکھ لیں۔ مکرمہ ڈاکٹر فضہ صاحبہ نے فرمایا کہ آپ عالم دین کا مذاق اڑا رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ کوئی کارنامہ کیا ہے شرم آنی چاہیے آپ لوگوں کو۔ مکرمہ ڈاکٹر فضہ صاحبہ نے اپنی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اپنے آپ میں بہت مکمل ہوں اس لئے میں کسی سے حسد نہیں کرتی۔ [اتنے انکسار کے باوجود اپنے کامل ہونے کا دعویٰ قابل توجہ ہے]۔
خلیل الرحمن قمر صاحب نے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ یہ چینل جھوٹ کی کمائی کھاتے ہیں۔ [انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ آیا جس چینل پر وہ یہ قول ارشاد فرما رہے تھے وہ بھی جھوٹ کی کمائی پر پل رہا تھا یا اس چینل کا ذریعہ آمد کچھ اور تھا۔] یہ جو چند لمبی زبان والے نام نہاد صحافیوں کا ٹولہ ہے۔ ان کی بدمعاشیاں ہم دیکھ رہے ہیں۔ ان کا محاسبہ کرنا ہوگا۔ ان کی پوچھ تاچھ کرنی ہوگی۔ ان کے اثاثوں کی چھان بین کرنی ہو گی۔ ان کا احتساب نہ کر کے ہم بہت بڑی حماقت کر رہے ہیں۔
اس مرحلے پر پہنچ کر وہ طارق جمیل صاحب سے بھی زیادہ جذباتی ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں یہ دعا کروں کہ یہ لفافے لینے والے صحافی کتے کی موت مریں۔ مگر میں سوچتا ہوں کہ بچیں گے کتنے؟ اور جو بچ جائیں گے ہم ان کا کیا کریں گے؟ ملاحظہ کریں چند منٹ پہلے اس پروگرام میں یہ اعلان ہو رہا تھا کہ آٹھ دس صحافی بد عنوان ہیں لیکن اب یہ کہا جا رہا تھا کہ بھاری اکثریت خلیل الرحمن صاحب قمر کی تیر بہدف دعا کا شکار جائے گی۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ پہلے صحافی فوج پر بھونکے اور اب حد ہو گئی اتنے بڑے عالم پر بھونک رہے ہیں۔
اس شائستہ چینل کی نہایت شائستہ زبان پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ تنقید ایک خاص پس منظر میں کی جا رہی ہے۔ جب حکومت کی طرف سے بار بار یہ اعلان ہو رہا ہے کہ وہ میڈیا کے کردار سے مطمئن نہیں ہے۔ میڈیا پر بار بار جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ اور ان کے اکثر پروگرام بے مقصد اور فضول ہو چکے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ بشمول صحافی صاحبان کے پاکستان میں کوئی شخص ایسا نہیں ہو گا جو کہ یہ خیال کرتا ہو کہ میڈیا پر نشر ہونے والی ہر خبر درست ہوتی ہے اور میڈیا پر کبھی جھوٹ نہیں بولا جاتا۔ کوئی اینکر، صحافی یا کسی چینل کا مالک ایسا نہیں ہو گا جو یہ دعویٰ کرے کہ ہر پروگرام مقصدیت سے بھرپور ہوتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ان سب حضرات میں سے کوئی اس بات کی نشاندہی نہیں کر رہا ہے کہ آخر اس وقت میڈیا پر کیا جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ کسی تجزیہ کو غلط قرار دینا ایک علیحدہ بات ہے۔ اور کسی خبر یا بات کا جھوٹ ہونا بالکل علیحدہ چیز ہے۔
مبشر لقمان صاحب، حسن نثار صاحب اور ڈاکٹر فضہ صاحبہ ہر روز سکرین پر جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ حکومت کا کوئی نہ کوئی نمائندہ روزانہ پریس کانفرنس کر رہا ہوتا ہے۔ یہ سب پاکستان کے عوام کو بتاتے کیوں نہیں کہ سنو! آج یا کل فلاں چینل پر یہ جھوٹ بولا گیا ہے۔ اور اس جھوٹ کا ثبوت ہم پیش کر رہے ہیں۔ اس وقت ہر زبان پر کورونا کی وبا کا ذکر ہے۔ میں نے کئی مرتبہ اس بارے میں حکومت کی طرف سے دیے جانے والے بیانات اور پریس کانفرنسیں سنی ہیں۔
میں دن کا آغاز کورونا کے بارے میں حکومت کی سائٹ کو دیکھ کر کرتا ہوں۔ میں نے تو کبھی نہیں سنا کہ انہوں نے یہ کہا ہو کہ کل فلاں چینل پر جو اس بارے میں جو خبر آئی تھی وہ غلط تھی۔ اس بارے میں اصل حقائق یہ ہیں۔ آج ہی گورنمنٹ کی اپنی سائٹ پر دیکھ لیں اس پر کسی نشر ہونے والی خبر کی تردید نہیں ملے گی۔ مبشر لقمان صاحب اور حسن نثار صاحب یہ دھمکی دے کر فارغ ہوجاتے ہیں کہ ہم سب کو بے نقاب کر دیں گے۔ سالہا سال سے ہر روز یہ احباب سکرین کو زیب و زینت بخش رہے ہوتے ہیں۔ آخر ان کو کون روک رہا ہے کہ یہ ”بدمعاش میڈیا“ کو بے نقاب کر دیں۔ بلکہ افتتاح اسی چینل سے کر نا چاہیے جس چینل سے یہ خود وابستہ ہیں۔
اس جھگڑے کے بعد توقع تو یہ تھی کہ حکومت اور یہ صالح صحافی ”بدمعاش میڈیا“ کو بے نقاب کر دیں گے۔ اور اس کے بعد لوگ ان چینلز کو دیکھنا بند کردیں گے۔ بلکہ طویل پروگرام نشر ہوں گے جس میں ”بھونکتے ہوئے میڈیا“ کی جھوٹی خبروں کی نشاندہی کی جائے گی۔ لیکن ہوا یہ کہ حکومت نے اپنی ہی ترجمان ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ کو برطرف کر دیا۔ اگر چینل جھوٹے تھے اور آپ کی نمائندہ سچ بول رہی تھیں تو یہ قدم کیوں اٹھایا؟