کہتے ہیں مرد عام طورپر
شکی ہوتے ہیں۔ شک کا ایک بڑا سبب عادت و مزاج ہوتا ہے چنانچہ کچھ مرد اپنی بیویوں
پر بلاجواز شک کرتے اور ان پر کڑی نگاہ رکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ وہ انہیں ایک
ایسے پولیس مین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو ہر شخص کو مجرم سمجھتا ہے۔ ایسے شوہر
اپنی بیوی کو مجرم گردانتے اور ہر دوسرے دن اس سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنی عفت
کا ثبوت پیش کرے۔ اس قسم کے لوگ باآسانی بدگمانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ بیوی کی
ہر ٹیلفون کل پر نظر رکھتے، اس کے ایس ایم ایس سے غلط معنی اخذ کرنے کی کوشش کرتے،
اس کے 'موڈ سوئنگ' کو اُلٹی سیدھی توجیہہ دینے کی کوشش کرتے، اس کی مسکراہٹ کے
پیچھے کسی کا خِیال محسوس کرتے، اس کی چہل قدمی کو کسی کا انتظار سمجھتے اور اس کے
میک اپ کو اپنی بدگمانی کی عینک سے مشکوک بنادیتے ہیں۔ جب بیوی ذرا بھی ان کے
سوالات کا جواب دینے میں چُوک جاتی اور انہیں مطمئن نہیں کرپاتی تو ان کے شک کا
سانپ اور سرکش ہوجاتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے شک کا یہ اژدہا پورے خاندان کو نگل لیتا
ہے۔
شک کا تعلق ماحول سے
بھی ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایک بند ماحول میں رہنےوالا شخص باآسانی بدگمانی کی جانب
مائل ہوجاتا ہے اور اگر بیوی ذرا آزاد ماحول کی ہو بس پھر تو معاملہ خراب۔ بیوی کا
کسی سے ہنس کر بات کرنا، کسی کی بات پر مسکرادینا، کسی کی تعریف میں دو بول بول
دینا، کسی پر تبصرہ کردینا ایک تنگ نظر میاں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ہر آنے والا
دن بیوی کوایک بے حیا عورت کے روپ میں پیش کرتا رہتا ہے۔ایسا مرد اپنی بدگمانی میں
طرح طرح کی باتیں سوچتا اور الٹے سیدھے اندازے لگاتا رہتا ہے۔ اس کی بدگمانی کبھی
اس کی مردانگی پر سوالیہ نشان ڈالتی، کبھی بیوی کے کردار کو براپیش کرتی، کبھی
بیوی کی بے تکلفی کو فحاشی گردانتی تو کبھی اس کی سرگرمیوں کی ٹوہ لینے پر اکساتی
ہے۔
بیوی سے بدگمان ہونے کی
ایک اور وجہ کوئی واقعہ، قصہ، ڈرامہ یا کہانی ہوتی ہے۔ کبھی کسی فلم سے متاثر ہوکر
میاں اپنی بیوی کو اسی روپ میں دیکھنے لگ جاتا ہے جس میں ایک بے حیا عورت کے کردار
کو دکھایا گیا ہوتا ہے۔ اب اسی مفروضے پر جب وہ روزمرہ کا جائزہ لیتا ہے تو بیوی
کی بہت سے باتیں اس کردار سے ملتی جلتی معلوم ہوتی ہیں۔ اس کی بیوی اس بے حیا
کردار کی طرح فیس بک بھی استعمال کرتی، واٹس ایپ بھی چلاتی، ای میل بھی کرتی اور
ایس ایم ایس بھی بھیجتی نظر آتی ہے۔ اسے اپنی بیوی بالکونی میں بھی کھڑی دکھائی
دیتی اور کبھی چھت پر جاتی نظر آتی ہے۔ اب اسے یہ خیال آتا ہے کہ کسی طرح بیوی کی
جاسوسی کرے۔ اس جاسوسی میں کوئی نہ کوئی ایسی بات مل سکتی ہے جو شک کو قوی کردے۔
اس کے بعد اعتماد متزلزل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ بدگمانی کی اس کے علاوہ بھی بے شمار
وجوہات ہوسکتی ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک
بدگمان شخص اس مفروضے پر سوچتا ہے کہ اس کی بیوی غلط راہوں پر جارہی ہے یہی اصل
خرابی کی جڑ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک شخص کا شک درست ہوسکتا ہے لیکن اس بات
میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ شک غلط بھی ہوسکتا ہے۔ چنانچہ عام اصول کے تحت ہر شخص
کو شک کا فائدہ دینا چاہیے اور اسے اس وقت تک بے قصور سمجھنا چاہیے جب تک کہ اس کے
قصور وار ہونے کے قوی ثبوت نہ مل جائیں۔
بدگمانی کے کئی حل ہیں۔
اول تو بدگمانی جب بھی پیدا ہو تو اسے پہلے مرحلے پر جھٹک دینا چاہیے۔ اگر اس سے
کام نہ بنے تو بدگمانی کی وجہ معلوم کرکے اس کا قلع قمع کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
اگر شک بہت قوی ہو تو اسے بات چیت کے ذریعے ڈسکس کرلینا چاہیے۔ اس سے رشتے میں
دراڑ کی بجائے مضبوطی پیدا ہوگی۔ اگر معاملہ اس سے بھی حل نہ ہو تو چند بزرگوں کو
بیچ میں ڈال کر سماجی دباؤ کے تحت کام کروایا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر
معاملہ حل نہ ہو تو کیا کریں؟ فرض کریں ایک شخص کی بیوی واقعی کسی دوسرے مرد میں
دلچسپی رکھتی ہے تو جذبات سے قطع نظر ہوکر دیکھیں تو کیا کیا جاسکتا ہے اس معاملے
کو خوش اسلوبی سے حل کریں اور حل نہ ہونے کی صورت میں خوش اسلوبی سے علیحدگی
اختیار کرلیں۔
بشکریہ دلیل