تصویر کے کاپی رائٹ اس مقدمے کی سماعت کے دوران پچاس کے لگ بھگ گواہاں کے بیانات قلمبند
کیے گئے ہیں
پاکستان کے صوبہ خیبر
پختونخواہ کے ضلع ایبٹ آباد میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج مشال خان قتل کے
مقدمے کا فیصلہ آج سنٹرل جیل ہری پور میں سنائیں گے جس کے لیے انتظامیہ نے شہر میں
سخت حفاظتی انتظامات کیے ہیں۔
وکلا کے مطابق سنٹرل
جیل ہری پور میں فیصلہ بدھ کی صبح دس بجے کے بعد سنایا جائے گا جس کے لیے ملزمان
کے والدین اور قریبی رشتہ دار ہری پور پہنچیں گے۔
ایبٹ آباد میں انسداد
دہشت گردی کی عدالت کے جج فضل سبحان خان مقدمے کی سماعت کے دوران گواہوں کے بیانات
اور وکلا کی بحث کے بعد فیصلہ محفوظ کر دیا تھا۔
اس مقدمے کی سماعت کے
دوران پچاس کے لگ بھگ گواہاں کے بیانات قلمبند کیے گئے ہیں۔
ضلعی انتظامیہ اور
پولیس حکام کے مطابق سنٹرل جیل ہری پور اور اس کے قریب علاقے میں سخت حفاظتی
انتطامات کیے گئے ہیں۔ سنٹرل جیل میں قائم عدالت میں جانے کے لیے وکلا اور مخصوص
افراد کو اجازت نامے جاری کیے گئے ہیں۔
پولیس کی بھاری نفری
سنٹرل جیل اور شہر کے حساس مقامات پر موجود ہو گی۔ حکام کا کہنا ہے کہ مشعال خان
قتل کے فیصلے کے بعد کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس کو چوکنا رہنے کی
تاکید کی گئی ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹ یہ
مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے ہاسٹل کا وہ کمرہ ہے جہاں مشال خان رہائش پذیر
تھے۔ ان کے قتل کے بعد پولیس نے کمرے کی تلاشی بھی لی تھی
مشال خان کے قتل میں
ملوث 57 ملزمان کے وکلا اس فیصلے کی سماعت کے لیے عدالت میں موجود ہوں گے جبکہ
مشال خان کے والد ان دنوں لندن میں موجود ہیں اس لیے وہ اس فیصلے کے وقت عدالت میں
موجود نہیں ہوں گے ۔ وکلا کے کہنا تھا کہ اس مقدمے میں نامزد تین سے چار ملزمان
تاحال گرفتار نہیں ہوئے ہیں۔
صوابی سے تعلق رکھنے
والے 23 سالہ مشال خان کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشتعل ہجوم نے
مبینہ طور پر گستاخانہ بیان پر تشدد کر کے قتل کر دیا تھا۔ یہ واقعہ 13 اپریل 2017
کو پیش آیا تھا جس کے بعد سوشل میڈیا پر تشدد کی متعدد ویڈیوز جاری ہوئی تھیں۔
پولیس اور حکومت سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو کلپس کے بعد حرکت میں آئی تھی۔
اس قتل کے الزام میں 57
افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں بیشتر کا تعلق عبدالولی خان یونیورسٹی سے ہے ان
میں یونیورسٹی کے ملازمین بھی شامل ہیں۔
مشال خان شعبہ صحافت کے
طالبعلم تھے اور ان کے والد کے مطابق مشال خان نے قتل سے چند روز پہلے ایک نجی
چینل کو انٹرویو میں یونیورسٹی انتظامیہ کی پالیسیوں پر تنقید کی تھی۔
بشکریہ بی بی سی اردو