تنقید سہنا اور کرنا دونوں ہی سیکھنا ضروری ہیں

 
اکتوبر میں ‌ فیس بک میسنجر کے ذریعے ایک کالج اسٹوڈنٹ کا یہ پیغام موصول ہوا تھا۔ یہ سائکالوجی کا سوال تھا اس لیے میں ‌ نے ڈاکٹر (خالد) سہیل کو بھیجا جنہوں ‌ نے اس اسٹوڈنٹ کو اس موضوع پر اپنی ایک کتاب بھیجی جس کے لیے بہت شکریہ۔ اس اسٹوڈنٹ نے پھر سے مجھے ایک اور پیغام بھیجا کہ آپ بھی اس موضوع پر لکھیں۔ میں ‌ نے سائکائٹری میں ‌ چھ مہینے ہاؤس جاب کی تھی لیکن سائکائٹری میرا باقاعدہ شعبہ نہیں ہے، اس لیے اس مضمون کو اسی طرح‌ پڑھا جانا چاہیے۔
قارئین سے یہ بھی گذارش ہے کہ میڈیکل کے سوالات کے لیے اپنے ذاتی فیملی ڈاکٹرز سے رجوع کریں۔ ڈاکٹر سہیل شہزادے ہیں، ان کی اپنی پریکٹس ہے اور میں ‌ ہسپتال کی ملازم، شہد کی کام کرنے والی مکھی۔ نہ ہی میرے پاس انٹرنیٹ پر میڈیسن پریکٹس کرنے کا وقت ہے اور نہ یہ لائسنس۔ ایک مرتبہ میں ‌ نے ڈاکٹر سہیل سے اپنے شیڈول کی شکایت بھی کی کہ نئے مریضوں ‌ کو دیکھنے میں ‌ تین مہینے لگ جاتے ہیں، انہوں ‌ نے کہا کہ میرے مریضوں کی ویٹنگ لسٹ ایک سال ہے۔ انہوں ‌ نے زندگی کے تجربے سے یہ سیکھ لیا کہ ہم کتنا بھی کام کریں، ہمارا کتنا بھی دن لمبا ہو، کام کبھی بھی ختم نہیں ‌ ہوگا۔ زندگی میراتھان ہے، ون ڈے کرکٹ میچ نہیں۔ میں ‌ بھی یہی سیکھنے کی کوشش کررہی ہوں۔
سوال مندرجہ ذیل ہے۔
”اسلام و علیکم میم!
میں ماسٹر ان پولیٹیکل سائنس کا طالبعلم ہوں۔ اور آپ کے تحریریں باقاعدگی سے پڑھتا ہوں۔ آپ کی تحریروں سے ہی مجھے امید ہوئی ہے کہ آپ میرا مسئلہ حل کرسکتی ہیں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں شروع سے ہی حساس طبعیت کا ہوں لیکن کچھ دن سے میں بہت پریشان ہوں۔ مجھے کسی کی کہی ہوئی چھوٹی سی بات، کوئی طنز، کوئی تنقید جو مجھے میری ناکامیوں پہ کی جاتی ہے بھی برداشت نہیں ہوتی۔ سارا دن ساری رات وہ بات میرے ذہن میں گھومتی رہتی ہے اور کڑھتا رہتا ہوں۔ اس قدر شدید اذیت ہوتی ہے کہ میں سو بھی نہی پاتا۔ اور مجھے لگتا ہے کہ اس اذیت سے موت آسان ہے۔ بس مجھے کچھ ایسا طریقہ بتائیں کہ میں بے حس ہو جاؤں۔ مجھے کسی کی بات محسوس نہ ہوں۔ خدارا مجھے اپنا بیٹا سمجھ کے میرا مسئلہ حل کر دیں۔ ساری زندگی میں آپ کو دعائیں دوں گا شکریہ ”
یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارے احساسات ہی ہمیں ‌ ایک انسان بناتے ہیں۔ ایسا نہیں ‌ ہوسکتا کہ ہم دکھ، تکلیف، نفرت، حسد، رنجش یا ٹھکراؤ محسوس نہ کریں ‌ اور صرف نرمی، محبت، سخاوت، رحمدلی اور آرام محسوس کریں۔ تمام احساسات نارمل ہیں ‌ اور ایک نارمل اور بھرپور زندگی گذارنے میں ‌ اہم ہیں۔ ایسا نہیں ‌ ہوسکتا کہ ہم کسی کو چن کر بے حسی دے دیں۔ اگر نفرت نہ ہو تو محبت کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ اگر تکلیف نہ ہو تو آرام کا کیسے پتا چلے گا؟
اگر کڑواہٹ نہ ہو تو میٹھا کیسے محسوس کریں ‌ گے؟ تنقید کا سامنا کرنا مشکل کام ہی ہے۔ اس کا نہ صرف ذہنی بلکہ جسمانی رد عمل بھی ہوتا ہے۔ چونکہ جنوب ایشیائی معاشرہ ایک گناہ اور شرم کے ذریعے تعلیم و تربیت دینے والا معاشرہ ہے، تنقید سے انسانوں ‌ میں ‌ وہ تمام احساسات تازہ ہوجاتے ہیں ‌ جو بچپن سے دماغوں ‌ میں ‌ بٹھائے گئے ہیں۔ یہ افراد جب تنقید کا سامنا کرتے ہیں ‌ تو وہ ایسا محسوس کرتے ہیں ‌ جیسے ان کی بہت بے عزتی کی جا رہی ہے کیونکہ بچپن میں ‌ مار پیٹ اور دوسروں ‌ کے سامنے شرمندہ کیے جانے کی یادیں ‌ تازہ ہوجاتی ہیں اور ان کو برفیلے ٹھنڈے پانی میں ‌ ڈبو دیے جانے کا احساس ہوتا ہے۔
میں ‌ تمام اسٹوڈنٹس سے یہ کہنا چاہوں ‌ گی کہ تنقید تعلیم حاصل کرنے کا ایک اہم حصہ ہے۔ تنقید لینا اور دینا دونوں ‌ ہی سیکھنا ضروری ہیں۔ ٹوسٹ ماسٹرز میں تنقید اوریو کوکی کی طرح‌ دی جاتی ہے جس کی دو سائڈیں چاکلیٹ کی بنی ہوتی ہیں اور بیچ میں ‌ سفید کریم ہوتی ہے۔ پہلے آپ کی تقریر کے بارے میں ‌ کچھ مثبت کہا جاتا ہے، پھر یہ بتایا جاتا ہے کہ اس میں کیا بہتر کیا جاسکتا ہے اور پھر کچھ مثبت۔ ہمارے کام پر تنقید سے ہم سیکھتے ہیں۔
اگر ہمیں ‌ ہوم ورک یا اسائنمنٹ پر فیڈ بیک نہ ملے تو ہم کبھی بھی اس کو بہتر نہیں بنا سکیں ‌ گے۔ میں ‌ نے ابھی تک جو بھی میڈیکل کے آرٹیکل لکھے اور مختلف جرنلز میں ‌ چھپوائے ہیں، وہ راتوں ‌ رات نہیں ‌ چھپے تھے۔ ملیریا کے کیس رپورٹ پر پیپر ریزیڈنٹ فزیشن جرنل میں ‌ چھپنے میں ‌ پورا ایک سال لگا تھا۔ ایڈیٹر بار بار واپس بھیجتے تھے کہ یہ ٹھیک کریں ‌، وہ ٹھیک کریں۔ جو لوگ چلتے رہتے ہیں، انہی کا کام چھپ جاتا ہے۔
تنقید تعمیری بھی ہوسکتی ہے اور تخریبی بھی۔ آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ تنقید کون کررہا ہے؟ اور کیوں؟ اگر آپ کے ٹیچر نے بتایا ہے کہ آپ اپنی اسائنمٹ بہتر بنا سکتے ہیں تو آپ اس تنقید کو توجہ سے سنیں اور جو بھی بتایا گیا ہو، وہ کرکے دوبارہ اپنا کام جمع کرائیں، یہ آپ کے اپنے فائدے کے لیے ہوگا جس سے آپ کی نشونما میں مدد ملے گی۔ آپ ان کی بات سن کر دہرائیں اور شکریہ ادا کریں۔ آپ کو حیرانی ہو گی کہ وہ یہ سن کر خوش ہوں گے کہ آپ نے ان کی بات توجہ سے سنی ہے۔
خود کو مضبوط بھی بنائیں۔ مضبوط انسان جو کھلے دل سے اور خلوص دل سے خود کو بہتر بنانے میں ‌ دلچسپی رکھتے ہیں وہ تنقید سے گھبرانے کے بجائے خود اس کی درخواست کرتے ہیں۔ کچھ لوگ بلاوجہ ہی تنقید کرتے ہیں جس سے آپ کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے۔ ان لوگوں ‌ کو اپنے دوستوں ‌ کے دائرے میں ‌ سے اور اپنی زندگی کے دائرے میں ‌ سے نکال دیں۔ کچھ لوگوں ‌ کو بلاوجہ ہی مسائل تخلیق کرنے کی بیماری ہوتی ہے جس سے وہ آپ کی توانائی نچوڑ لیں گے۔
میں ‌ نے خود اپنی زندگی میں ایسا ہی کیا۔ کون سے رشتے مجھے پیچھلے کھینچ رہے ہیں؟ کون سے تعلقات مجھے کل سے اپنا آج بہتر بنانے میں ‌ مددگار ہیں؟ کون سی تنقید جائز ہے؟ کون سی تنقید میرے گرد موجود دائرے کی عزت نہیں ‌ کرتی؟ آپ کے لیے کیا اہم ہے؟ ہر انسان کی زندگی مختلف ہے اور ہماری زندگی کے مقاصد بھی مختلف ہیں۔ آپ کو اپنی انفرادی صورت حال کے مطابق فیصلے کرنے ہوں گے۔ میں ‌ کون ہوں؟ سے شروع کرنا ہوگا۔
کوئی دو تین سال پہلے میری سالگرہ پر میری ایک اچھی دوست لالہ رخ نے مجھے تحفے میں ‌ پروفیسر برنے براؤن کی کتاب ”ڈئیرنگ گریٹلی“ پڑھنے کے لیے دی۔ ہیوسٹن یونیورسٹی کی ریسرچ پروفیسر برنے براؤن جرات، خطرے کا سامنا کرنے کی ہمت، انسانی قابلیت اور شرم کے میدان میں ‌ کام کرنے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ بروفیسر برنے براؤن نے اپنے الفاظ سے دنیا میں ‌ لاکھوں ‌ افراد کی رہنمائی کی۔
پروفیسر برنے براؤن کے 17 اقوال میں ‌اس اسٹوڈنٹ کے لیے ترجمہ کروں ‌ گی۔ امید ہے کہ ان مثبت الفاظ سے آپ کی ہمت افزائی ہو گی۔
1۔ جرات خود کو اور اپنے کام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے سے شروع ہوتی ہے۔
2۔ جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ اہم ہے لیکن ہم جو ہیں وہ زیادہ اہم ہے۔
3۔ سچائی اور جرات آسان کام نہیں لیکن وہ آپ کی کمزوری ہرگز نہیں ہیں۔
4۔ کیا آپ خوش رہنا چاہتے ہیں؟ تو پھر پرفیکٹ ہونے کی کوشش کرنا چھوڑ دیں۔
5۔ ہر کوئی جاننا چاہتا ہے کہ خریداروں ‌ کی خدمت یعنی کسٹمر سروس کیوں ‌اتنی بگڑ گئی ہے؟ میں ‌ یہ جاننا چاہتی ہوں ‌ کہ خریدار اتنا کیوں ‌ بگڑ گئے ہیں؟
6۔ خود سے محبت کرنا اور ایک دوسرے کو اصلی انسان بننے میں ‌ مدد دینا ہی اصلی جرات ہے۔
7۔ یہ سمجھ لینے سے میری زندگی بدل گئی کہ اپنی قابلیت کو لوگوں ‌ کے ردعمل سے ناپتے رہنا میرے وقت کا زیاں ہے۔
8۔ جب ہم میں ‌ اندھیرے کا سامنا کرنے کی بہادری پیدا ہوجائے گی تبھی ہم روشنی کی طاقت کو دریافت کر پائیں گے۔
9۔ جب ہم غیر معمولی کا پیچھا کرتے ہیں تو زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ‌ کھو دینے کے خطرے میں ہوتے ہیں۔
10۔ گہرائی سے سوچیں، جان بوجھ کر عمل کریں، متاثر ہوں ‌ اور چلتے رہیں۔
11۔ آپ کو خوشی ہوگی کہ آپ نے کوشش کی، چاہے اس میں ‌ ناکامی ہی کیوں ‌ نہ ہو۔
12۔ معذرت خواہ ہوئے بغیر اپنی ناکامیوں ‌ کے بارے میں ‌بات کریں۔
13۔ سوچ کا زاویہ ”میں ‌ کیا کامیابی حاصل کرسکتا ہوں؟ “ سے بدل کر ”میں ‌ کیا حاصل کرنا چاہتا ہوں؟ “ پر مرکوز کریں۔
14۔ انسانی رابطہ ہی ہے جس کی وجہ سے ہم یہاں ہیں۔ انسانی رابطوں سے ہی ہماری زندگیوں ‌ کو مقصد اور معنی حاصل ہوتے ہیں۔
15۔ میرے خیال میں ‌ سچا لیڈر وہ ہوتا ہے جو دیگر افراد میں ‌چھپی صلاحیت کو ڈھونڈتا ہے اور اس کو سامنے لانے کے طریقہ کار کی کامیابی کے لیے خود احتسابی کرتا ہے۔ (مثال کے طور پر وجاہت مسعود اور عدنان کاکڑ جنہوں ‌ نے ہم سب آن لائن میگزین کو تخلیق کیا اور نئے لکھاریوں ‌کی حوصلہ افزائی کی۔)
16۔ صداقت ان فیصلوں ‌ کے مجموعے کا نام ہے جو ہم روز چنتے ہیں۔
17۔ مجھے خوشی تلاش کرنے کے لیے غیر معمولی لمحات کا پیچھا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر میں ‌ متوجہ ہوں تو وہ میرے سامنے موجود ہے۔
امید ہے کہ اس مختصر مضمون سے سوال پوچھنے والے اسٹوڈنٹ اور دیگر قارئین کو مدد ملے گی۔