کینیڈا میں ہمارے کلینک میں گرین زون تھراپی سے سینکڑوں مریض اور ان کے خاندان استفادہ کر چکے ہیں۔ جب سے میں نے ’ہم سب‘ پر ماہرِ نفسیات کی ڈائری لکھنی شروع کی ہے مجھے ہر ہفتے ای میلز اور فیس بک مسیجز آنے لگے ہیں۔ لوگ اپنے نفسیاتی مسائل مجھے بھیجتے ہیں اور میں ان کے جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں نے سوچا کہ میں اس موضوع پر چند کالم لکھوں تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے استفادہ کر سکیں۔ یہ اس سلسلے کا یہ پہلا کالم ہے، گویا بارش کا پہلا قطرہ۔
ایک ماہرِ نفسیات ہونے کی حیثیت سے مختلف نفسیاتی ہسپتالوں میں بیس سال کام کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ روایتی ڈاکٹر نفسیاتی مریضوں کا ادویہ سے علاج کرتے ہیں۔ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں ایک ایسا پروگرام بنائوں جو اپنی مدد آپ کے اصول پر قائم ہو تاکہ اس پروگرام سے مریض اپنے نفسیاتی مسائل کو خود سمجھ سکیں اور ایسے اقدامات کر سکیں جن سے وہ ایک صحتمند‘ خوشحال اور پرسکون زندگی گزار سکیں۔ جس طرح ایک ذیابیطس کا مریض اپنی خوراک اور ورزش سے اپنے جسم کی شوگر کو کنٹرول کر سکتا ہے اسی طرح میں چاہتا تھا کہ ایک نفسیاتی مریض بھی اپنی anxiety اور depression کو نفسیاتی طریقوں سے کنٹرول کرنا سیکھ سکے۔
پھر ایک دن ایسا ہوا کہ مجھے ایک فیملی ڈاکٹر نے ایک جوڑا بھیجا جو ازدواجی مسائل کا شکار تھا۔ BILL اور NANCY کی شادی کو بارہ سال ہو گئے تھے اور ان کا ایک دس سال کا بیٹا JASON بھی تھا۔ بل کا نفسیاتی مسئلہ یہ تھا کہ اسے بہت جلد غصہ آ جاتا تھا اور وہ غصے کی حالت میں اپنی بیوی پر چیختا چلاتا تھا‘ اس کی بے عزتی کرتا تھا‘ ہتک کرتا تھا‘ تذلیل کرتا تھا۔ آخر نینسی تنگ آ گئی اور اس نے بل سے کہا کہ تم اپنے غصے کا علاج کروائو ورنہ میں تمہیں طلاق دے دوں گی۔ تم ہمارے بیٹے کے لیے اچھا رول ماڈل نہیں ہو۔
جب میں نے بل کا انٹرویو لیا تو وہ کہنے لگا کہ میں اپنی بیوی سےبہت محبت کرتا ہوں۔ آپ میری مدد کریں تا کہ میں ایک بہتر شوہر اور باپ بن سکوں۔ بل نے مجھے بتایا کہ وہ جس خاندان میں پلا بڑھا تھا وہ بھی نفسیاتی مسائل کا شکار تھا۔ اس کا باپ ایک اچھا رول ماڈل نہیں تھا۔ بل کا کہنا تھا کہ اس کا باپ ایک شدت اور جارحیت پسند انسان تھا۔ جب بھی اس کی ماں اس کے باپ کے کی کسی رائے، موقف یا فیصلے کی مخالفت کرتی تو وہ اسے مارتا پیٹتا کیونکہ وہ اپنے ہر سچ کو حتمی سچ اور ہر فیصلے کو صحیح فیصلہ سمجھتا تھا۔ بل کو اس بات پر فخر تھا کہ اس نے اپنی بیوی پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔
نینسی نے مجھے بتایا کہ بل جب بھی غصے میں آپے سے باہر ہوتا تھا وہ اگلے دن نینسی سے معافی مانگتا تھا اور وعدہ کرتا تھا کہ آئندہ ایسا نہیں کرے گا لیکن چند دن بعد وہ پھر بے قابو ہو جاتا تھا۔ بل کبھی کبھار نینسی کے لیے تحفے اور پھول بھی لاتا تھا جو نینسی کی نگاہ میں اس کی محبت سے زیادہ اس کی ندامت اور احساسِ گناہ کے آئینہ دار تھے۔
بل ہر ہفتے اپنی تھراپی کے لیے مجھ سے ملنے آتا۔ ایک دن بل انٹرویو میں اپنے بیٹے کے بارے میں باتیں کر رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا ’تم اپنےبیٹے کے مستقبل کے بارے میں کیا سوچتے ہو؟‘ کہنے لگا ’میں چاہتا ہوں وہ بڑا ہو کر ایک شہزادہ بنے‘۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا ’اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا بیٹا شہزادہ بنے تو تمہیں اس کی ماں کو ملکہ کی طرح رکھنا چاہیے۔ تم اس سے کنیزوں جیسا سلوک کرتے ہو اور کنیزوں کے بیٹے شہزادے نہیں بنا کرتے‘۔ میری بات سن کر بل ایک گہری سوچ میں ڈوب گیا جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ تھراپی سے کچھ سیکھ رہا ہے۔
ایک دن جب بل مجھے بتا رہا تھا کہ وہ کیسے چھوٹی چھوٹی باتوں سے بے قابو ہو جاتا ہے تو میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا ’بل جب تم ڈرائیو کر رہے ہوتے ہو اور اشارہ YELLOW ہو جائے تو تم کیا کرتے ہو؟‘
کہنے لگا ’ میں ایکسلیریٹر پر پائوں رکھتا ہوں‘
میں نے پوچھا ’وہ کیوں؟‘
کہنے لگا’ میں ہمیشہ جلدی میں ہوتا ہوں۔ دفتر جانے کی جلدی۔ بیٹے کو بےبی سٹر سے اٹھانے کی جلدی۔ گھر پہنچنے کی جلدی۔‘
میں نے کہا ’ایک عقلمند انسان ییلو اشارہ دیکھ کر ایکسلیریٹر پر نہیں، بریک پر پائوں رکھتا ہے۔ جب تمہیں غصہ آنے لگتا ہے تو تم نفسیاتی طور پر ییلو زون میں ہوتے ہو اور جب بے قابو ہو جاتے ہو تو تم ریڈ زون میں چلے جاتے ہو۔ جب تمہیں غصہ آنے لگے تو کمرے سے باہر چلے جایا کرو اور اس وقت تک باہر رہا کرو جب تک تم واپس گرین زون میں نہیں آ جاتے۔‘
بل کرسی میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا ’ڈاکٹر صاحب۔ مجھےبات سمجھ آ گئی ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں آج سے ہی آپ کے مشورے پر عمل کرنا شروع کروں گا۔ آپ ایک ہمدرد ڈاکٹر ہیں‘
اس انٹرویو کا بل کے دل پر بڑا اثر ہوا اور اس کے مزاج میں تبدیلی آنی شروع ہو گئی۔ دو ہفتوں کے بعد نینسی آئی اور کہنے لگی ’ڈاکٹر صاحب آپ کے گرین زون فلسفے کا بہت فائدہ ہو رہا ہے‘۔ چند ماہ میں بل نے اپنے غصے کو کنٹرول کرنا سیکھ لیا اور ان کی شادی طلاق سے بچ گئی۔ میں نے آخری انٹرویو میں بل کو شاباش دی اور کہا کہ اس کی تھراپی کا اس کے بیٹے کو بھی فائدہ ہوگا اور بڑا ہو کر وہ بھی اپنے بیوی کی عزت کرے گا۔ جانے سے پہلے جب بل نے مجھے گلے لگایا تو اس کی آنکھوں میں آنسو اور اس کی بیوی کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
بل اور نینسی کے علاج کے بعد میں نے گرین زون فلسفے کو دوسرے مریضوں پو آزمایا اور مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ انہوں نے بھی اسے بہت کار آمد پایا۔ آہستہ آہستہ اگلے چند سالوں میں میں نے گرین زون کی بنیاد پر ایک عمارت تعمیر کی اور چند کتابیں لکھیں۔ گرین زون فلسفے کے چند بنیادی اصول ہیں۔ اس کالم میں میں آپ کا پہلے اصول سے تعارف کروائوں گا۔ باقی اصولوں کا ذکر اگلے کالموں میں آئے گا۔
گرین زون تھراپی کا پہلا اصول
گرین زون تھراپی کا پہلا اصول یہ ہے کہ ہم ٹریفک لائٹس کی طرح نفسیاتی طور پر تین زونز میں رہتے ہیں۔
جب ہم مسکرا رہے ہوتے ہیں اور زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں اس وقت ہم اپنے GREEN ZONE میں ہوتے ہیں۔
جب ہم تھوڑے سے پریشان ہوتے ہیں تھوڑے سے فکرمند ہوتے ہیں تھوڑے سے اداس ہوتے ہیں اس وقت ہم اپنے YELLOW ZONE میں چلے جاتے ہیں اور جب ہم غصے میں بے قابو ہو جاتے ہیں یا شدید یاسیت میں ڈیپرشن کا شکار ہو جاتے ہیں تو ہم اپنے RED ZONE میں گر جاتے ہیں۔
گرین زون فلسفہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم کیسے زیادہ سے زیادہ وقت گرین زون میں گزارین تا کہ نفسیاتی طور پر ایک صحتمند‘ خوشحال اور پر سکون زندگی گزار سکیں۔
گرین زون فلسفہ آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ میں نے اپنی کتابوں میں کوشش کی ہے کہ گھمبیر خیالات‘ پیچیدہ تضادات اور گنجلک مسائل کو عام فہم زبان میں لکھوں تا کہ ان سے زیادہ سے زیادہ لوگ استفادہ کر سکیں۔
گرین زون کا بنیادی تصور اتنا آسان فہم ہے کہ ایک دن میرے شاعر دوست رشید ندیم نے مجھے فون پر بتایا کہ ان کی پانچ سالہ بیٹی افروز اور سات سالہ بیٹا امروز ایک کمرے میں کھیل رہے تھے پھر لڑ رہے تھے اور پھر انہیں افروز کے رونے کی آوز آئی۔ وہ کمرے میں گئے اور پوچھنے لگے ’بٹیا آپ رو کیوں رہی ہیں؟‘ افروز نے کہا ’ ابو میں ریڈ زون میں ہوں میں اس وقت بات نہیں کر سکتی آپ واپس اپنے کمرے میں چلے جائیں‘
چند منٹوں کے بعد افروز رشید کے کمرے میں آئی اور کہنے لگی’ ابو اب میں ییلو زون میں ہوں بات کر سکتی ہوں‘
رشید نے پوچھا ’آپ ییلو زون میں کیسے چلی گئیں؟
کہنے لگی امروز نے میری گڑیا کی ٹانگ توڑ دی ہے‘
رشید نے کہا ’بٹیا میں کیا ہیلپ کر سکتا ہوں؟‘
کہنے لگی ’ابو اگر آپ وعدہ کریں کہ مجھے ایک نئی گڑیا خرید دیں گے تو میں گرین زون میں آ جائوں گی ورنہ میں واپس ریڈ زون میں چلی جائوں گی‘
رشید ندیم نے افروز کو گلے لگایا اور نئی گڑیا خریدنے کا وعدہ کیا۔
رشید ندیم نے مجھے بتایا کہ ان کے بچے روزمرہ زندگی میں اب میرا گرین زون فلسفہ استعمال کرتے ہیں یہ علیحدہ بات کہ کبھی کبھار اس کا ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔
گرین زون فلسفہ جہاں اتنا سادہ ہے کہ بچے سمجھ جاتے ہیں وہیں اتنا گھمبیر بھی ہے کہ اسے دفتروں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ میرے ایک منیجر دوست روفی کے ڈیپارٹمنٹ میں ساٹھ لوگ کام کرتے ہیں۔ روفی نے بازار سے چھوٹے چھوٹے ساٹھ گرین ساٹھ ییلو اور ساٹھ ریڈ جھنڈے خریدے اور سامنے کی میز پر رکھ دیے۔ جب لوگ کام پر صبح آتے ہیں تو وہ اپنے موڈ کے مطابق ایک جھنڈا لے جا کر اپنی میز پر رکھ دیتے ہیں۔ اس سے ہر شخص کو نہ صرف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خود کس زون میں ہے بلکہ یہ بھی پتہ رہتا ہے کہ اس کا مخاطب کس زون میں ہے۔ روفی کا بوس جب لاس ویگس سے آیا تو اسے گرین زون کا فلسفہ اتنا پسند آیا کہ اس نے واپس جا کر امریکہ کے دفاتر میں اس کا تعارف کروایا۔
اس کالم میں میں نے گرین زون فلسفے کا تعارف کروایا ہے۔ آئندہ کالموں میں میں اس فلسفے کی تفاصیل بتائوں گا اور اس پر عمل کرنے کے طریقے بھی تا کہ ان سے آپ اپنے نفسیاتی مسائل خود حل کر سکیں اور ایک صحتمند‘ خوشحال اور پرسکون زندگی گزار سکیں۔