اس نے ایک متوسط طبقے میں آنکھ کھولی تھی۔ اپنے بہن بھائیوں میں پہلے نمبر پہ تھی لاڈلی تو پورے گھر کی تھی اور کامی بھی۔ ابا صبح سویرے کام پہ جاتے توشام کی ہی خبر لیتے وقت یونہی گزرتارہا کھیلتے کودتے لڑکپن میں قدم رکھا محلے گلیوں میں گھومنا گلی کے تھڑوں پہ اونچ نیچ کھیلنا اور کھیل کھیل میں دوڑ کے امی کوسودا بھی لادینا اور پھر آکر اپنی ہم جولیوں میں گِھرجانا, شام ہوتے ہی اپنے اپنے گھروں کولوٹ جانا۔ موسم گرما کی کوئی ایسی چھٹیاں نہی گزرتی ہوں گی جب گڑیا گڑا کی شادی گلی میں منعقد نہ کی گئی ہو۔ بچپن کب گزرا پتاھی نہی چلا۔ امی نے گھر سے باہر نکلنے پہ روک ٹوک شروع کردی۔ الجھن سی تو رہتی تھی کہ امی اب سوداکے لئے پریشان ہوتی ہے لیکن اسے نہی بھیجتیں۔
بچپن سے عادت تھی جو بازار سے چاہیے ہوتا دوڑ کے لے آتی۔ پھر آہستہ آہستہ باہر آنے جانے میں روک لگنے لگی۔ بچپن کی معصومیت یہ نہ سمجھ سکی کہ ایسا کیوں ہورہا ہے لیکن ماں اس کے بدن میں آنے والے تبدیلی دیکھ رہی تھی لہذا اس کو گھر سے باہر جانے سے روکنے لگی۔ وقت تیزی سے گزرتارہا سکول کا راستہ اتنا ہی تھاکہ پیدل سر کر لیا جائے سو ایک متوسط گھرانے سے تعلق ہونے کی بنا پر ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر نہ تھی۔ راستہ اتنا لمبا نہ تھا لیکن راستے میں کئی طرح کی دکانیں آتی تھی۔
کہیں دودھ والا، کہیں تندور تو کہیں مکینک۔ ایک دن وہ بہت الجھی ہوئی گھر آئی ماں چہرہ دیکھ کر ہی بھانپ گئی پوچھنے پہ پتا چلا کہ راہ چلتے ایک شخص نے ٹکر ماری اور نہ صرف ٹکرایا بلکہ اس کے ہاتھ لڑکی کو بری طرح چھوتے ہوئے گئے۔ وہ بہت پریشان تھی۔ ماں نے بچی کو گلے سے لگا کر خوب تسلی دی اور آج اسے یہ بتانے میں مجبور بھی ہوئی کہ لڑکی کا وجود اس معاشرے میں چلتا پھرتا فتنہ ہے اور اپنے اس فتنے کو خود ہی سنبھالنا پڑتا ھے چاہے آپ کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو، کوئی فرق نہی پڑتا۔ اپنے ہی وجود کوفتنہ مان کر وہ پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اپنی ماں کودیکھنے لگی اور اس کی روح تک نے یہ بات جان لی کہ مرد اس وقت تک عورت کا کچھ نہی بگاڑ سکتا جب تک عورت اس فتنہ کو بے لگام نہ کرے۔