پراگ کی اخلاق باختہ عورتیں اور دھان گلی کے اخلاق یافتہ مرد

 
شناسائی مختصر ہے اور حلقہ یاراں مختصر تر۔ جو ہیں وہ مردم بیزاری میں مجھ سے سوا ہیں۔ سو چھٹی کا دن بھی ”عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے“ جیسا رہا اور اس کا اگلا دن بھی یوں ہی گزرنے کو تھا کہ شام کو موسم کے کچھ سنورنے کی امید نظر آئی۔ بیوی اور بیٹی سے دست بستہ درخواست کی کہ اگر وہ روایت کے برعکس جلد تیار ہونے کو راضی ہوں تو باہر نکلا جا سکتا ہے۔ بیٹا ایسے مواقع پر نیند میں نہ بھی ہو تو سوتا بن جاتا ہے۔ اسی عالم میں اس نے صاف انکار کر دیا۔ خیر گاڑی باہر نکالی تو پہلا سوال یہ کہ جایا کہاں جائے۔ لے دے کے اسلام آباد اور راولپنڈی کے جو چند مقامات تفریح ہیں وہ ایسے تیوہاروں پر اس قابل نہیں رہتے کہ شریف آدمی کا وہاں سے گزر ہو اور ٹوپی سلامت رہ جائے۔ سوچا کسی ایسی جگہ چلتے ہیں جہاں ابھی یاروں کی نظر نہ پہنچی ہو۔
راولپنڈی سے کوئی پینتیس میل دور کشمیر اور پنجاب کی سرحد پر دھان گلی ہے۔ کبھی یہاں ایک انتہائی خوبصورت سسپنشن برج ہوا کرتا تھا پھر بڑھتی ٹریفک کے سبب ایک کنکریٹ کا پل بنا دیا گیا جو اب جناب یوسف رضا گیلانی کے نام پر ہے۔ ادھر یہ پل بنا ادھر یار لوگوں نے سسپنشن برج کی تاریں، کمانیاں اور تختے بیچ کھائے۔ اب اس خوبصورت پل کی جگہ جہلم کے دو کناروں پر دو اداس محرابیں سر نیہوڑائے ستون باندھے کھڑی ہیں اور ان کے درمیان ایک بچ رہنے والی فولاد کی بدنما تار دست بند کی زنجیر کی طرح جھولتی رہتی ہے۔ کچھ گرفتار بلا کی مجسم سی شکل بنتی ہے پر صاحب جس ملک میں گندھارا کی پوری تہذیب برباد کر دی گئی ہو وہاں ایک پل کا نوحہ کیا سنائیں اس لیے اپنی کہانی کی جانب پلٹتے ہیں۔
دھان گلی پہنچنے میں گھنٹہ سوا گھنٹہ لگتا ہے۔ دریا کا چوڑا پاٹ ہے۔ کشمیر کے پہاڑوں کے سامنے پنجاب کے میدان بچھے ہیں۔ کسی کنارے کھڑے ہو جائیے اور منظر کو دل میں اتارتے رہیے۔ سکون ملتا ہے۔ پچھلی دفعہ سخت دھوپ کے دن میں وہاں اترے تو میلوں خاموشی اور ویرانہ تھا۔ اس دفعہ توقع یہ نہیں تھی کہ موسم بہتر تھا اور عید کا دوسرا دن تھا۔
دھان گلی سے کوئی دس میل ادھر رش میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ گاڑی خال خال تھی پر موٹر سائیکلوں کا ایک انبوہ تھا۔ ہر موٹر سائیکل پر تین تین نوجوان سوار تھے۔ کوئی پچاس میں سے ایک ایسی بھی تھی جس پر ڈبل سواری کی پابندی ہو رہی تھی وگرنہ عمومی صورت حال میں موٹر سائیکل رکشے اور کار کے بیچوں بیچ کا فائدہ دیتی نظر آئی۔ نوجوانوں نے بھڑکیلے کپڑے پہن رکھے تھے۔ اتنی گرمی میں ریشمی ملبوسات پہننے کی ہمت یقینا ان پر ختم تھی۔ آنکھوں پر رنگ برنگی عینکیں سجی تھیں اور پیروں میں کام والے کھسے عجب بہار دے رہے تھے۔
قطع نظر اس کے کہ سواریوں کا بوجھ کتنا تھا، ہر چوتھا پانچواں جاں نثار نیم پہاڑی علاقوں میں موٹر سائیکل کے اگلے پہیے کی افادیت کا منکر نظر آیا۔ سب سے دل چسپ بات یہ تھی کہ سینکڑوں کے اس غول میں صنف نازک نامی جنس ناپید تھی۔ لگتا تھا کہ تیوہار صرف مرد کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ ہر ایک جو ہماری گاڑی کے قریب سے گزرتا تھا اس کی نظریں سڑک سے بھٹک کر ہماری گاڑی کے اندر اترتی تھیں اور وہیں رہ جاتی تھیں کہ گاڑی میں مردو زن کے تناسب میں خواتین کو دو تہائی برتری حاصل تھی۔ ایک دو تو ایسے محو ہوئے کہ گاڑی سے آگے نکلنے پر بھی آنکھیں یہیں ٹکانے کے قصد سے گردن نوے کے زاویے پر مڑی رہی۔
اب موٹر سائیکل شمال میں جا رہی ہے پر سر مبارک مغرب میں ہے۔ دو چار سڑک سے اتر گئے۔ ایک جگہ ایک موٹر سائیکل دوسرے میں جا لگی اور کچھ حادثے سے بس ذرا پہلے مشکل سے سنبھلے۔ اس سارے تماشے سے دل کو سخت کوفت ہوئی اور رفتار بڑھانے کے علاؤہ جائے مفر نظر نہ آئی۔ رفتار بڑھانے کی وجہ سے گاڑی کے دھچکوں کی فی منٹ تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور اسی تناسب سے بیوی اور بیٹی کی ڈانٹ میں بھی جو بحیثیت ڈرائیور میرا نصیب ٹھہری پر ہم ڈھیٹ بنے تیز گاڑی چلاتے رہے۔
دھان گلی سے کچھ میل پہلے ہی سڑک پر رونق بڑھتی گئی، اگر آپ اسے رونق کہنا چاہیں، کہ اگر تصویر میں رنگ وجود زن کی دین ہیں تو پھر یہ تصویر مکمل طور پر سیاہ و سفید تھی۔ سڑکوں کے کنارے کئی عارضی بازار اگ آئے تھے۔ چائے، پکوڑے، سموسے اور ٹھنڈی بوتلیں سجی ہوئی تھیں۔ یہ عارضی کھوکھے ویسے ہی نوجوانوں سے آباد تھے جن کے ہمزاد اس سفر میں اپنی گرسنہ آنکھیں لیے ہمارے ساتھ ساتھ تھے۔ پل پر پہنچے تو اچھے بھلے کشادہ دو رویہ پل پر محض اتنی جگہ تھی کہ ایک گاڑی مشکل سے گزر سکے۔
دونوں اطراف میں موٹر سائیکلیں بے ترتیبی سے کھڑی پل پر قابض تھیں۔ بیٹری والے سی ڈی پلیئرز پر اونچی آواز میں ہر نسل کے بیہودہ گیتوں کا غلغلہ تھا۔ اور مرد، جی صرف مرد، کھوے سے کھوا چھلاتے پھر رہے تھے۔ جو اچٹتی گفتگو کہیں گاڑی کے شیشوں سے در آتی تھی اس میں عورت سے جڑے ہر رشتے کی کئی گالیاں ایک سانس میں سنی جا سکتی تھیں۔ لیکن یہ غصے کی نہیں، آپس کی روزمرہ کی گفتگو تھی جس میں عید کی خوشی نے چوکھا رنگ لگا دیا تھا۔
ابھی دو روز پہلے یہ سب خدا کی خوشنودی کی خاطر بھوکے پیاسے فرائض اور نوافل ادا کرنے میں مصروف تھے۔ کچھ یقینا معتکف بھی ہوں گے۔ ایک مہینے کی نفس کشی سے جو تربیت ہوئی تھی وہ دکھائی دیتی تھی، سنائی دیتی تھی پر بیان کرنے کے قابل نہیں تھی۔ ہماری گاڑی گزری تو دریا کی موجوں کو بھول کر ہر نظر گاڑی پر مرکوز ہو گئی۔ اگر نظروں سے کھانا ممکن ہوتا تو گاڑی میں شاید صرف میں ہی بچ پاتا کہ کوئی مجھے نہیں دیکھتا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ گاڑی میں دو خواتین نہیں، دنیا کی نگاہ سے پوشیدہ کچھ ایسے عجائب تھے جو بس اس ایک گھڑی میں دیکھنے ممکن تھے۔
یہ وہی مرد تھے جو اپنی عورتوں کی عزت، عصمت اور عفت کی دہائی دیتے انہیں آج بھی گھر سے نکلنے کی اجازت دینے کے روادار نہیں تھے۔ ان کی موٹر سائیکلوں پر دوستوں کی جگہ تھی پر ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے لیے کوئی نشست موجود نہیں تھی۔ اپنے آپ کو دل میں کوستے کسی طرح پل عبور کیا تو کشمیر شروع ہو گیا۔ حیرت انگیز طور پر پل کے دوسری جانب کوئی طوفان بدتمیزی نہیں تھا۔ اکا دکا لوگ تھے۔ اور ٹریفک کے نام پر بس چند ایک مشینی سواریاں۔
  پل پر اترنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اس لیے چند میل اور گاڑی چلائی اور پھر نسبتا ایک سنسان جگہ اسے ٹھہرا دیا۔ نیچے اترے۔ کچھ تصویریں بنائیں۔ نشیب میں دریا کا چوڑا پاٹ سبز پہاڑوں کے پیش منظر میں خوبصورت لگتا تھا۔ بھوکی نگاہوں سے دور چند لمحے ہی بتائے تھے کہ کہیں سے پھر نوجوانان ملت نازل ہو گئے۔ ان کی توجہ دریا سے زیادہ ہماری طرف تھی۔ عافیت اسی میں جانی کہ گاڑی میں بیٹھیں، اسے واپس موڑیں اور گھر کا قصد کریں۔ واپسی کا سفر بھی انہی اذیتوں سے عبارت تھا جو جاتے ہوئے نصیب ٹھہری تھیں۔ واپسی کے سفر میں نجانے کیوں ایک اور پل یاد آ گیا۔
پرے سال یہی دن تھے جب ہم پراگ میں تھے۔ ایسے ہی ایک دن ہم دریائے وولٹا پر بنے قدیم چارلس برج پر پہنچے تھے۔ وقت بھی اریب قریب یہی ہو گا۔ پل پر مشینی ٹریفک ممنوع تھی۔ گاڑی ایک پارکنگ میں کھڑی کی اور ٹہلتے ٹہلتے پل پر پہنچے۔ راستے میں کافکا کے ایک سر سے ملاقات طے تھی جو اس دن گھومنے سے انکاری تھا۔ خیر یہ بات ابھی سمجھانا مشکل ہے اس لیے یہ داستان کسی اور دن کے لیے سہی۔
پل پر پہنچے تو ایسی بھیڑ تھی کہ کندھے سے کندھا ٹکرائے بنا چلنا مشکل تھا۔ جتنے مرد تھے اتنی ہی عورتیں تھیں کیونکہ کافر تفریح پر دونوں کا برابر حق سمجھتے ہیں۔ گرمی کے باعث ملبوسات ایسے تھے کہ ہر ایک پر ہمارے مبلغین کے فتاوی کے بروچ ٹانکے جا سکتے تھے پر کوئی کسی کی طرف للچائی نظروں سے نہیں دیکھتا تھا۔ پل پر آنے کے بعد بیٹا ایک طرف نکل گیا۔ بیٹی ایک سٹریٹ ڈانس گروپ کا رقص دیکھنے رک گئی۔ بیوی کو ان دنوں تصویر کشی کا نیا نیا شوق سوار ہوا تھا اس لیے وہ ہر طرف پھیلی زندگی کے نئے زاویے ڈھونڈنے میں لگ گئی۔
میں نے اپنا کیمرہ الگ سنبھالا ہوا تھا۔ کچھ دیر میں ہم سب ایک دوسرے سے جدا تھے پر کوئی فکر مند نہیں تھا۔ مجھے اوباشوں سے بچانے کے لیے اپنی بیٹی اور بیوی کو اپنے قریب کسی حصار میں رکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ فحش، عریاں اور اخلاقی زوال کے پاکستانی مارکہ ٹھپہ لگے مغربی معاشرے میں عورت کی عزت ملک عزیز کی نسبت کہیں زیادہ محفوظ تھی۔ خوف کا کوئی سایہ نہیں تھا۔ جسم ٹٹولنے والے ہاتھ عنقا تھے۔ فضا مغلظات سے بوجھل نہیں تھی۔ آنکھیں اپنے کام سے کام رکھتی تھیں۔ رات گئے تک ہم چارلس برج پر رہے۔ پھر ایک دوسرے کو ڈھونڈا اور جب تھک گئے تو ایک خوشبودار احساس کے ساتھ اپنے اپارٹمنٹ کو لوٹ گئے۔
امرتا کہتی تھی کہ ہمارے خطے کے مرد نے عورت کے ساتھ سونا سیکھا ہے، جاگنا نہیں۔ امرتا نے پورا سچ نہیں بولا۔ ہمارے خطے کے مرد نے عورت کے ساتھ جاگنا ہی نہیں، بات کرنا بھی نہیں سیکھا۔ اس کے ساتھ چلنا بھی نہیں سیکھا، اسے دیکھنا بھی نہیں سیکھا۔ اس نے اسے انسان سمجھنا بھی نہیں سیکھا۔ عورت ایک حق ملکیت کا نام ہے۔ ایک برتنے کی چیز ہے جسے استعمال کے بعد غلاف چڑھا کر دیوار میں چنتے نہیں تو کواڑوں کے پیچھے مقفل ضرور کر دیتے ہیں اور اسے ہم نام دیتے ہیں عورت کی عزت کا، اس کی حفاظت کا، اس کی عصمت کا۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ مغرب میں عورت کا استحصال ہوتا ہے انہیں نہ استحصال کے معنی آتے ہیں نہ اس کے ہجے آتے ہیں۔
عورت کی آزادی کو گناہ سمجھنے والے اس سماج میں عورت کو غلام بنائے رکھنا ضروری ہے کہ پدرسری معاشرے میں مرد کے اقتدار میں کوئی دراڑ نہ پڑے۔ عورت نے کیا پہننا ہے، کیا پڑھنا ہے، کیا کام کرنا ہے، کس سے شادی کرنی ہے، کس کی خدمت کرنی ہے یا کس کے نام پر زندگی گزارنی ہے۔ ان میں سے کوئی فیصلہ عورت کا اپنا نہیں ہے۔ صدیوں کے جبر اور ذہن سازی نے عورت کو بھی اسی بات پر قائل کر لیا ہے کہ اسی میں اس کی نام نہاد عزت اور بقا ہے کہ وہ ان لگے بندھے اصولوں کے کھونٹے سے بندھی ایک گول دائرے میں چلتی رہے۔ اس کی آنکھ پر پٹی بندھی ہے اور منہ پر نقاب ہے۔ پر اسے چلنا ہے، اسی گول دائرے میں تاکہ سماج کے رہٹ کا پہیہ گھومتا رہے اور اس کی جسم وجان کے مالک کی پیاس سیراب ہوتی رہے۔
  مذہب، شرع، روایت اور ثقافت کے نام پر ہر بیڑی صرف عورت کے پیر میں ڈالی گئی ہے۔ ہمیں پراگ کے چارلس برج پر پھرتی لڑکیاں نیم برہنہ دکھائی دیتی ہیں، اخلاق باختہ لگتی ہیں۔ استحصال کی شکار کہلاتی ہیں۔ جانتے ہیں کیوں۔ کیونکہ وہ اپنی مرضی سے ہنس سکتی ہیں۔ اپنی مرضی سے گھر سے قدم باہر نکال سکتی ہیں۔ اپنی مرضی سے جیون ساتھی چن سکتی ہیں اور اپنی مرضی سے اسے چھوڑ سکتی ہیں۔ اپنی مرضی سے پڑھ سکتی ہیں، اپنی مرضی کی نوکری کر سکتی ہیں، اپنا بوجھ خود اٹھا سکتی ہیں، اپنی مرضی سے سفر کر سکتی ہیں، اپنی مرضی سے تفریح کر سکتی ہیں اور ہاں، اپنی مرضی سے سانس لے سکتی ہیں۔
یہ ہم کیسے مان لیں۔ ہمارے دھان گلی کے پل پر پھرتے ہمارے اخلاق یافتہ مرد جو مغلظات بکتے ہیں، آوازے کستے ہیں، اکا دکا نظر آنے والی ہر لڑکی کو آنکھوں سے، باتوں سے اور بس چلے تو ہاتھوں سے ٹٹولتے ہیں، یہ ہمارے سماج کا اصل چہرہ ہیں اور ان کی عورتیں ان کے گھروں میں بند ہیں۔ یہ ان عورتوں کے قوام ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جو غلام کی طرح بچپن سے لے کر بڑھاپے تک ان کی چاکری کرتی ہیں۔ جن کے رشتے سوداگری کی طرح ہوتے ہیں۔ جن کی تعلیم پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔ جن کے لباس کی تراش خراش بھی ان کی منظوری کی رہین ہے۔ گھر میں عورت کو بند کر کے، اسے تعلیم سے محروم کر کے، اسے نقاب اوڑھا کر اس کی شناخت چھیننے سے، اسے گھر کی ملکہ کہہ کر، اسے دنیا کے کاروبار سے دور رکھ کر ہم نے نعرہ یہ لگایا کہ عورت اگلی نسل کی اسی طرح بہتر تربیت کر سکے گی۔
تربیت بھی سامنے ہے اور نسل در نسل بھی سامنے ہے۔ دعویٰ اپنی جگہ، پر سچ بہت مختلف ہے، بہت کڑوا ہے۔ ہم ابھی بھی پتھر کے زمانے میں زندہ ہیں۔ عورت کی عزت، اس کی آزادی، اس کی خواہشیں، اس کی اڑان، اس کے خواب۔ ان سب کی باتیں تو بہت دور کی بات ہے۔ ابھی تو عورت کو یہ اجازت بھی نہیں کہ وہ دھان گلی کے پل پر ہی قدم دھر سکے۔ معلوم نہیں استحصال اور کسے کہتے ہیں۔ غلامی کون سی اور چڑیا کا نام ہے اور جبر کا اندھا کنواں اور کیسا ہوتا ہے۔ جس دن عورت دریائے جہلم کے کنارے خوشی سے آزاد فضا میں پھرنے کے قابل ہو گئی اس دن بات آگے چھیڑیں گے تب تک یہ عورت کو چار دیواری میں بند رکھنے کے جواز بھی وہیں رکھیے گا کہ ان کے تعفن سے جی گھبراتا ہے۔

بشکریہ  ہم سب