میں‌ نے خود کو ذیابیطس سے کیسے بچایا؟

 
یہ کون آنٹی مجھے فیس بک فرینڈ ریکؤئسٹ بھیج رہی ہیں؟ جب میں‌ نے ان کی تصویر غور سے دیکھی تو میرے دل پر ایک گھونسہ سا لگا کہ وہ میری میڈیکل کالج کے زمانے کی پرانی کلاس فیلو تھی۔ اتنی جلدی سے اتنا سارا وقت ہاتھوں‌ میں‌ سے پھسل گیا۔ زندگیاں‌ دو تین نہیں‌ ہوتیں‌ کہ ایک میں‌ پڑھ لیں گے، دوسری میں‌ کام کریں‌ گے اور تیسری میں‌ تفریح۔ یہی ہے جو سب کچھ ہے۔ جب ہم اسکول میں‌ پڑھتے تھے تو مووی “قیامت سے قیامت تک” نکلی تھی جس میں‌ عامر خان یہ گاتا ہے،
پاپا کہتے ہیں بڑا نام کرے گا
بیٹا ہمارا ایسا کام کرے گا
مگر یہ تو کوئی نہ جانے
کہ میری منزل ہے کہاں!
اب ہم نے جو بننا تھا وہ بن چکے ہیں‌ اور جہاں‌ پہنچنا تھا وہاں‌ پہنچ چکے ہیں۔ اس عمر میں‌ آکر کچھ لوگوں کو مڈلائف کرائسس ہوتا ہے، کسی کا دیوالیہ نکل جاتا ہے، کچھ کو کینسر ہوجاتا ہے، کچھ کو طلاق اور کچھ کو ذیابیطس! میری عمر کے تقریباً تمام دوستوں اور رشتہ داروں‌ کو ذیابیطس ہوچکی ہے۔ نیویارک میں‌ کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ذیابیطس کا خطرہ جنوب ایشیائی افراد میں‌ دیگر نسلوں کے مقابلے میں‌ سب سے بڑھ کر پایا گیا۔ جو جنوب ایشیائی افراد امریکہ ہجرت کرتے ہیں، ان میں‌ مٹاپا اور ذیابیطس کا خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس تھیوری کو تھرفٹی جین تھیوری کہتے ہیں کیونکہ جینیائی لحا‌ظ سے ہمارے آباؤ اجداد کے جسم آسان زندگی اور خوراک کی فراوانی نہیں جانتے تھے۔ ریڈ انڈین افراد کو بھی جب مغربی طرز زندگی کی ریزرویشنز میں‌ آباد کیا گیا تو 1950 کے بعد ان میں‌ ذیابیطس کی شرح ایکدم سے اوپر گئی کیونکہ وہ صدیوں‌ سے ایک مختلف زندگی کے عادی تھے۔
آج کے مضمون میں‌ اس بات کا ذکر کروں‌ گی کہ میں‌ نے خود کو ذیابیطس سے کیسے بچایا؟
میڈیکل اسٹوڈنٹ ہونے کے لحاظ سے سب جانتے ہیں‌ کہ بہت ساری پڑھائی کرنی ہوتی ہے۔ پہلے کالج ختم کیا، اس کے بعد بہت سارے ٹیسٹ دیے جن کے لیے سارا میڈیکل کالج کا کورس ہی نہیں‌ بلکہ وہ سبجیکٹ بھی پڑھے جو کالج میں‌ نہیں‌ پڑھائے گئے تھے جیسا کہ بایواسٹیٹ اور ایپی ڈیمیالوجی۔ اس کے بعد میرے دو بچے ہوئے جن کے بعد میں‌ بہت موٹی ہوگئی تھی۔ انٹرنل میڈیسن کی ریزیڈنسی میں‌ زندگی بہت مصروف تھی اور کھانے پینے پر توجہ دینے اور ورزش وغیرہ کے لیے کوئی وقت نہیں ہوتا تھا۔ میں اور میری ایک پڑوسی دوست بس چھٹی والے دن ہی ٹریڈ مل پر چلتے تھے۔ فیلوشپ کے دوران اپنی امی کی ذیابیطس تشخیص کی۔ اس کے بعد میری تین سال چھوٹی کزن نے اپنے خون کے ٹیسٹ دکھائے تو میں‌ یہ دیکھ کر پریشان ہوگئی کہ اس کو بھی ذیابیطس ہوگئی ہے۔ اس کے بعد میری کلاس فیلوز مجھ سے اپنی ذیابیطس کے علاج کے بارے میں‌ پوچھنے لگیں۔ یہ حالات دیکھ کر مجھے اپنا مستقبل تاریک دکھائی دینے لگا۔ آج سے دس پندرہ سال پہلے سے میں‌ نے اپنی زندگی گزارنے کے طور طریقوں‌ میں‌ آہستہ آہستہ تبدیلیاں‌ کیں جن میں‌ سے ذیابیطس سے خود کو بچانے کے لیے مندرجہ زیل اہم ہیں۔
1- ہر قسم کے جوس یا سوڈا پینا چھوڑ دیا۔
2- دن میں 8 گلاس پانی پینا شروع کیا۔
3- کافی یا چائے میں‌ چینی کے بجائے اسپلینڈا ڈالنا شروع کیا۔
4- میٹھی چیزیں‌ کھانا انتہائی کم کردیا۔ جیسے کیک، چاکلیٹ، مٹھائی، ڈونٹ، بسکٹ اپنی روزمرہ خوراک میں‌ سے بالکل نکال دیں۔
5- روزانہ اپنا وزن کرنا شروع کیا۔ تحقیق بتاتی ہے کہ جو لوگ روزانہ اپنا وزن کرتے ہیں، ان کا وزن بہتر قابو میں‌ رہتا ہے۔
6- کھانے میں‌ سے گوشت کم کردیا اور سبزیاں اور دالیں پکانا شروع کیں۔ گائے کے گوشت کے بجائے مرغی یا ٹرکی کو ترجیح دی۔ سبزیوں‌ میں‌ کم کاربوہائیڈریٹ والی سبزیاں چنیں جیسا کہ بھنڈی اور بینگن۔
7- ہفتے میں‌ کم از کم ایک دن مچھلی کھانا شروع کی اور آہستہ آہستہ جاپانی سوشی میری پسندیدہ ڈش بن گئی۔ بلکہ میں‌ نے اس کو کھانے کے لیے چاپ اسٹکس استعمال کرنا بھی سیکھ لیا۔ ہمیشہ کچھ نیا سیکھتے رہنا چاہئیے، اس سے دماغ میں‌ نئے راستے بنتے ہیں۔
8- گھی، مکھن چھوڑ کر زیتون اور مونگ پھلی کے تیل سے کھانا پکانا شروع کیا۔
9- کوئی 8 سال پہلے باقاعدگی سے ہفتے میں‌ کم از کم دو دن زومبا کلاسیں لینا شروع کیں۔ زومبا کلاسیں لیتے ہوئے سالسا، مرینگے اور کومبیا کے قدم بھی سیکھ لیے۔ انسٹرکٹر کا لائسنس لے لیا تھا لیکن اس کے لیے میرے پاس وقت نہیں‌ تھا۔
10- فٹ بٹ لے لیا اور دن میں دس ہزار قدم اٹھانے کا گول بنایا۔ اسمارٹ فون ایپ میں‌ دوستوں‌ کی ٹیم بنائی اور ہم ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں۔ 2018 میں‌ آدھی میراتھان میں‌ شرکت کا ارادہ ہے جو کہ 13 میل ہوتی ہے۔ اس کے لیے ہم لوگ مہینے میں‌ سو میل چل رہے ہیں۔
11- ہر سال خون کے ٹیسٹ کروانا، آنکھوں‌ کے ڈاکٹر کو دیکھنا، فلو ویکسین لگوانا اور سال میں‌ ایک مرتبہ ڈینٹسٹ سے چیک اپ کروانا ہر شخص کے کیلینڈر پر لازمی ہونا چاہئیے۔
اپنی زندگی میں‌ یہ تبدیلیاں‌ لاکر میں نے خود کو ابتک ذیابیطس سے بچایا ہوا ہے۔ جن کو ذیابیطس ہو تو وہ بھی ان تبدیلیوں‌ سے اپنی بیماری کو بہتر بناسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین چھاتی کے کینسر کی تشخیص کے لیے سالانہ میموگرام کروائیں۔ شروع میں‌ پتا چل جائے تو علاج بہتر طریقے سے ہوسکتا ہے۔ اپنی زندگی میں صحت مند رہنا اور خوش رہنا بہت ضروری ہے۔ جو لوگ اپنی زندگی میں‌ خوش نہیں ہوتے وہ دوسرے لوگوں‌ کی بلکہ اپنے بچوں‌ کی زندگی جینا شروع کردیتے ہیں۔
خواب دیکھتے رہیں، بڑھتے رہیں اور ہر روز کچھ ہنسیں!
بشکریہ  ہم سب