خواتین کا می ٹو اور مردوں کا وی ٹو

 
سوشل میڈیا پر ایک نیا ٹرینڈ چل پڑا ہے کہ ہر تیسری ماڈرن خاتون ”می ٹو“ کا حصہ بنتی نظر آرہی یا اس کا حصہ بننا چاہتی ہے۔ یہ مہم 2017 میں پروان چڑھی کہ اس کی بنیاد 2006 میں رکھی گئی۔ تاہم اسے عروج بہت برس بعد جا کے ملا۔ اور اب جسے دیکھو می ٹو کا ٹیگ کسی تمغے کی طرح اپنے ماتھے پر سجانے کو تیار ہے ایک اندازے کے مطابق اب تک چھیاسی ممالک کی خواتین اس کا حصہ بن چکی ہیں۔ پاکستانی خواتین میں بھی اس کے جراثیم وافر مقدار میں ملے ہیں۔
اور اس کا شکار میشا شفیع پہلے کیس کے طور پر سامنے آئی۔ بس پھر کیا تھا یہ وائرس پھیل گیا اور بہت ساری میڈیا کی خواتین نے اس میں انٹری دی۔ لیکن میشا شفیع کی طرح انھوں نے کسی مشہور شخصیت کا ذکر کرنے سے گریز کیا کہ کہیں میشا کی طرح مشہور ہونے کا یہ بوگس طریقہ ان کے گلے نہ پڑ جائے۔ وہ بس اس مہم کا حصہ بن جائیں یہی کافی ہے۔ کچھ خواتین نے می ٹو مہم کا حصہ بننے کے لئے اپنے بچپن کے واقعات شیئر کیے۔ تیس، چالیس سال بعد ان واقعات کو منظر پر لانے کا مطلب سمجھ سے باہر ہے۔
محض مشہور ہونے کے لئے یا ٹی وی شوز کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے ۔ تو یہ نہایت بیہودہ طریقہ ہے۔ اگر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ وہ ان ہتھکنڈوں سے مردوں کو زیر کر لیں گی تو یہ نادانی ہے ان کی۔ کہ اگر مرد اس سلسلے میں عورتوں کی برابری کرنے نکل پڑے تو جانے کتنی خواتین کو منہ چھپانے کو وہ آنچل دوبارہ اوڑھنے پڑ جائیں جنھیں وہ کسی نادیدہ بوجھ کی طرح کندھوں سے اتار چکی ہیں۔ کہ می ٹو مہم کے جواب مرد بھی ایک “وی ٹو” مہم کا آغاز کرنے کو پر تول رہے ہیں۔
اس کے لئے چند ایک لکھاری بھی میدان میں اتر چکے۔ ایک کالم نگار نے تو “وی ٹو” لکھ بھی ڈالا۔ اللہ جانتا ہے کہ وہ اس کا شکار ہوئے یا پھر زیب داستاں کے لئے لکھ ڈالا۔ لیکن اگر وہ کالم نگار صاحب اس کو باقاعدہ پرموٹ کرنا چاہتے ہیں تو ایک کالم لکھنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اس کے لئے انھیں سوشل میڈیا پر باقاعدہ “وی ٹو” مہم کا آغاز کر کے اپنے ذاتی تجربات شیئر کرنا ہوں گے۔ اکثر مرد حضرات کی طرف سے بھی ایسی شکایات ملی ہیں۔
جس میں انھوں نے شکوہ کیا ہے کہ وہ بے تحاشا محتاط زندگی گذارتے ہیں۔ بازار میں رش ہو تو ہم مرد خود دھوپ اور ٹریفک کے دھوئیں میں کھڑے رہتے ہیں لیکن خواتین کو راستہ دے دیتے ہیں اگر محرم الحرام یا عید میلادالنبی کا جلوس ہو تو خواتین ہم مردوں کو جلوس نہیں دیکھنے دیتیں یہی کہتی ہیں اپ پیچھے ہو جائیں اور ہم شریف لوگ اپنی مردانہ اکڑ کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے شرافت سے اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں اور یہ تک پوچھنے کی ہمت نہیں کرتے کہ آپ خواتین کا ہم مردوں کے جلوس میں سڑکوں پر کیا کام۔
پھر اگر خواتین کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں کوئی ایک منچلا غوطہ زن ہونے کی کوشش کرے تو گالیاں ہم سارے مردوں کو پڑتی ہیں۔ اور اگر ہم قومی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پرائی لڑائی میں کود پڑتے ہیں اور اپنی صحت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس انجان خاتون کے لئے اپنی ہی برادری پر پل پڑتے ہں تو سامنے والا اگر طاقتور ہو تو ہماری ہڈی پسلی تو ایک ہوتی ہی ہے بعض اوقات پرائے پھڈے میں پڑ کر مسنگ پرسن کی طرح ہمارے منہ سے ہمای ذاتی بتیسی ہمیشہ کے لئے مس ہو جاتی ہے۔
دوسرا جو اپنے لئے دشمنی پالتے ہیں وہ الگ۔ قومی غیرت کا یہ مظاہرہ ہمیں خاصا مہنگا پڑتا ہے۔ جبکہ ہم اس خاتون کو جانتے بھی نہیں ہوتے۔ ان کا یہ شکوہ بھی ہے کہ ہماری مجال نہیں کہ ہم خواتین کی محفل میں جانے کا سوچ بھی سکیں۔ بلکہ اگر دو خواتین کے اجتماع میں اگر کن سوئی لینے کی کوشش بھی کی جائے تو وہ باقاعدہ گالیوں پر اتر آتی ہیں اور ہماری ماں بہن اور پتہ نہیں کیا کیا ایک کر دیتی ہیں۔ کوئی پبلک پلیس ہو، کوئی اجتماع ہو چاند رات ہو، جلوس ہو، ٹریفک ہو“ شاپنگ مال ہو ہم مرد انھیں راستہ ہی دیتے رہتے ہیں، اگر بارش برس رہی ہو تو ہم مرد عورت کے احترام میں اپنی چھتری بھی دے دیتے ہیں اور خود بھیگتے رہتے ہیِں۔
لیکن دل کی شدید خواہش کے باوجود یہ گنگنانے کی جسارت نہیں کر پاتے ”اے ابرِ کرم آج اتنا برس، اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں“ جبُ ہم مرد آپ خواتین کی محافل میں نہیں جا سکتے تو آپ ہم مردوں کے جلوس میں کیوں کود پڑتی ہیں۔ اور اگر آپ آ ہی جاتی ہیں تو پھر کوئی ایک آدھ منچلا آپ کو تاڑنے کی جسارت کر ہی لیتا ہے تو آپ ہم سب مردوں کو کیوں مورد الزام ٹھراتی ہیں اس میں غلطی تو آپ کی بھی ہوتی ہے۔ خاتون اکیلی ہو، دو ہوں یا گروپ کی شکل میں۔
ہم مردوں کی مجال نہیں کہ ان کی طرف دیکھنا تو دور ان کے پاس سے بھی گزر جائیں۔ جبکہ وہ جب چاہے ہم مردوں کے پاس آکر آرام سے بات کر سکتی ہے بلکہ بات تو الگ خوامخواہ کا مشورہ بھی دے ڈالیں گی۔ ہم ایسا کریں تو می ٹو مہم چلا دیتی ہیں اور وہ ہماری عزت پر حملہ کردیں تو ہم بیچارے شریف مرد کدھر جائیں۔ اگر خواتین غیر محفوظ ہیں تو محفوظ ہم بیچارے مردوں کی عزت بھی نہیں۔ ان کا الزام ہے کہ کہ اکثرخواتین راہ چلتی انھیں آنکھ مار جاتی ہیں یا پھر ان کی شرماہٹ کو نشانہ بنا کر چھیڑتی ہیں بلکہ کالج یونی فیلو تو باقاعدہ گروپ بنا کر ہماری شرافت کو تارتار کرتی ہیں کہ وہ دیکھو ”بلو رانی“ آرہا ہے۔
تو کیا یہ سب می ٹو کے زمرے میں آتا ہے یا وی ٹو کے؟ مردوں کے اس معصومانہ بلکہ مظلومانہ سوال پر مجھے کالم لکھنے کی شدید ضرورت محسوس ہوئی۔ بات یہ کہ ہر بار عورت سچی نہیں ہوتی اور ہر مرد برا نہیں۔ جنسی ہراسگی اچھی بات نہیں مردوں کی طرف سے ہو یا خواتین کی طرف سے۔ اس کا سد باب ہونا چاہیے۔ سخت قانون بننا چاہیے۔ می ٹو میں شامل ہونے والیوں نے اپنے بچپن کے تلخ تجربات شیئر کیے۔ تیس چالیس سال بعد ان واقعات کو دہرانے کا حاصل کچھ نہیں۔
یہ تماشا لگا کر مشہور تو ہوا جا سکتا ہے اور کچھ نہیں۔ کہ مجرم کو اس وقت ہی سزا ملنی چاہیے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جنسی ہراسانی کا شکار زیادہ تر کم عمر بچیاں ہوتی ہیں اور ہمارے بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ یہ ایک قبیح اور گھناؤنا فعل ہے جس کے مجرم کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے اس کے لئے اپنے بچوں کی حفاطت خود کرنا ہوگی کسی ملازم، رشتے دار، ہمسائے کسی بھی شخص پر بھروسا مت کریں۔ دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ قبیح فعل کبھی رکے گا نہیں چاہے زمانہ کتنی ہی ترقی کر لے۔
گندے ذہن کے لوگ اس فعل کو انجام دیتے رہیں گے سو ماں باپ کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہیے۔ اس کی روک تھام کے لئے ایک گروپ نے یہ تجویز دی کہ بچوں کے نصاب میں سیکس اویئرنیس کی تعلیم دی جائے تاکہ بچے اپنے اوپر ہونے والی اس اٹیمپٹ کو روک سکیں۔ بچوں کے نصاب میں ایسی تعلیم شامل کرنے کا مطلب ہم ان سے ان کا بچپن چھین کر بڑا بوڑھا کر دیں یہ ایک منفی سوچ ہے اس کے لئے بچوں کو تعلیم کی نہیں بڑوں کی تربیت کی ضرورت ہے۔
اس کے سدباب کے لئے بڑوں کے لئے نفسیاتی سیشن رکھے جانے چاہیے۔ ہمیں بچوں کو تعلیم دینے کی بجائے سمجھدار باشعور، عاقل و بالغ لوگوں کی تربیت کرنا ہوگی۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں سیمینار کرنے کی بجائے گلی محلے کی سطح پر ڈبیٹ کرنا ہوگی۔ بڑوں کی نفسیاتی پہلوؤں کے حوالے سے ہسپتالوں میں ان کے لئے نفسیاتی سیشن رکھنا ہوں گے۔ صرف سوشل میڈیا پر می اور وی ٹو کے ٹیگ لگا کر مشہور ہونے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اگر اسے اخلاقی جرم سمجھتے ہیں تو اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر اس کے لئے کام کریں۔ نا کہ دو ٹو اکٹھے کر کے ایک انٹرٹینمنٹ مہیا کرنے کی کوشش کریں
بشکریہ ہم سب