سولہ برس کی عمر ہو، اور ذکاؤ الرب الرباب کا ناول شوگراں کی چاندنی ہاتھ لگ جائے تو بتائیے بھلا دنیا میں کون رہتا۔ ثنا تو جیسے کتاب کا کیڑا ہی بن گئی۔ اس قدر رومینٹک ناول کہ جب تک پورا نہیں پڑھ لیا، کتاب رکھی نہیں، اور رکھنا اتنا آسان بھی نہ تھا۔ بڑی بہن اردو ادب میں ایم اے کر رہی تھیں؛ ان کی کتابوں میں سے چپکے سے نکالا تھا۔ کتاب کیا تھی، یوں سمجھو کسی دوسری دنیا میں پہنچا دیا۔ برفیلے پہاڑ گرم گرم حمام اور ایک خوابوں کا شہزادہ اور شہزادہ بھی محبت سے لب ریز۔
سولہ گذری، اکیس آ گئی؛ اماں ابا کو شادی کی فکر ستانے لگی۔ غربت کے ڈیرے جس گھر میں پڑاؤ ڈالے بیٹھے ہوں، وہاں لڑکیاں واقعی بوجھ ہوتی ہیں۔ بہت کم ایسی لڑکیاں ہوتی ہیں، جو اپنے ماں باپ کی پریشانی کو سمجھیں۔ زیادہ تر تو بس اپنے خوابوں کے محل، دماغ میں بسائے ہوتی ہیں؛ جہاں شوگراں کی چاندنی کا شہزادہ یخ بستہ سرد برفیلے پہاڑوں میں ان کے گھر ٹھیرتا ہے۔ وہ اپنے مہمان کی مہمان داری میں جت جاتی ہیں۔ شہزادہ اس خدمت سے مرعوب ہو کر محبت کر بیٹھتا ہے۔
خوابوں کا محل تو تب چکنا چور ہوتا ہے، جب شادی کے بعد سسرال میں پہلا قدم رکھتی ہیں۔ ثنا بھی جب رخصت ہو کر آئی، تو اپنے شوہر کو اپنا شہزادہ مان لیا۔ جس شہزادے نے اس وقت جنم لیا تھا، جب وہ اپنی بالی عمر میں شوگراں کی چاندنی پڑھ رہی تھی۔
شادی کے اگلے دن ایک نحیف سی کرب کی لہر اس میں دوڑ گئی، جب نند نے اسے اپنی ساس کی چٹیا گوندھنے کا کہا۔ ابھی تو نئی نیویلی دلھن کی جھجک کم بھی نہ ہوئی تھی۔ اکیس سال کی ثنا نے بظاہر خوش دلی سے یہ کام کر دیا۔ ابھی کچھ دن ہی گذرے تھے، کہ ساس اور سسرال کی فرمایشی کام اور ضروریات، ثنا سے منسلک ہونے لگیں۔ ساس صاحبہ اپنے بڑے بیٹوں کی بہوؤں سے اتنی نالاں تھیں، کہ انھوں نے ثنا کو کوئی ایسا موقع فراہم نہیں کیا، کہ اسے ایسا لگے، کہ وہ یہاں کسی کی بیوی بھی ہے۔ دن اس تیزی سے گذر رہے تھے، اور اس کے خوابوں کا شہزادہ اپنے کردار سے پھسلتا جا رہا تھا۔ صبح سویرے شوہر کام کو نکلتا، تو پیچھے دیور اور ساس صاحبہ کا ناشتا اور پھر گھر میں آنے والے ساس صاحبہ کے مہمانوں کا تانتا بندھ جاتا، جوکھانا کھائے بنا چلے جائیں، ایسا ممکن ہی نہیں تھا۔ ثنا کے ہاتھوں کی منہدی توایسے غائب ہوئی، مانو جیسے لگی ہی نہیں تھی۔ شوہر نام دار اپنی بیگم کو وقت تو دیتے تھے، لیکن بس اپنی ضرورت کے جتنا پھر پلٹ کر دیکھنا تو دور کی بات، حال تک پوچھنا گوارا نہیں کرتے تھے۔
اکیس سال کی ثنا شادی کے فورا بعد کام میں ایسے جھونک دی گئی، جیسے لائی اسی مقصد کے لیے ہو۔ کام تو عورت کا مقدر ہے، لیکن اس طرح فوراً سے پورے گھر کا کام جمع، جیٹھ حضرات اور ان کی بیوی بچوں کی مہمان داریاں، وہ بھی روزانہ؟ آہ! اتنا آسان نہیں تھا، اس کے لیے۔ بچپنا ختم تو ہوا نہیں تھا، لہذا اپنے شہزادے سے توقعات باندھنا شروع کر دی تھیں۔ شوہر کی شکل دیکھتے ہی بچوں کی طرح روز کی روداد سناتی، اپنے پہ بیتنے والے ظلم کی داستان سناتی۔ شوہر بھی جیسے چکنا گھڑا تھا، سب سنتا چپ چاپ۔ وہ بدھو اس کی خاموشی کو ہم دردی سمجھ کر اور دکھڑے روتی۔
ساس صاحبہ نے اپنے مرحوم شوہر کی برسی رکھی۔ تمام بچوں کو کھانے پہ بلایا۔ ثنا اپنے حد تک جو کر سکتی تھی، اس نے کیا، لیکن آج اس کا جی بہت متلا رہا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر میں چکرائے جا رہی تھی۔ آس پاس کوئی بھی تو ایسا نہیں تھا، جو جھوٹے منہ ہی اس کی خیریت پوچھ لیتا۔ کسی کو چائے چاہیے تھی، تو کسی کو اپنے بچے کی فیڈر کے لیے پانی۔ چہرہ تھا کہ زرد ہوئے جا رہا تھا، لیکن مرتی، کیا نہ کرتی؛ نمٹانا تو تھا۔ خیر سے سب اپنے گھروں کو ہو لیے۔ ساس بھی اپنے تخت پہ جاکر لیٹ گئیں۔ شاید وہ بھی ماضی کی یادیں تازہ کر رہی ہوں گی، آنکھیں موندے۔ شوہر نام دار صحن سے برتن سمیٹ کر باورچی خانے میں رکھ کر پلٹے ہی تھے، کہ ثنا کو جو زرد ی مائل چہرہ لیے کھڑی تھی، پوچھ بیٹھے کہ بھئی تمھیں کیا ہوا ہے؟ بس ہم دردی کی دیر تھی اور وہ پھٹ پڑی، باورچی خانے کا سنک جھوٹے برتنوں کے ڈھیر سے ابل رہا تھا، اور ثنا نے یہ برتن دھونے تھے۔ بےوقوف جب اپنی بھڑاس نکال چکی، تو الٹے ہاتھ کا ایک زناٹے دار تھپڑ، اس کے منہ پہ پڑا۔ وہ شوہر جو چکنا گھڑا بن کر اس کی شکایتیں سن لیتا تھا، آج اس کی برداشت کا پیمانہ بھی لب ریز ہو گیا تھا۔ ثنا تھپڑ کی چوٹ کھا کر چکرا کے گر پڑی اور بے ہوش ہو گئی۔
ہلکے سے سردرد کے ساتھ جب صبح، ثنا کی آنکھ کھلی، تو شوہر کو اپنے پاس بہت مطمئن انداز سے بیٹھے دیکھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتی، شوہر نے ڈپٹ کر کہا، اب اپنا بچپنا چھوڑ دو تم۔ خود بھی ماں بنے والی ہو۔
ثنا جو کل ہی اپنےایک خواب کے ٹوٹے محل کی کرچیاں سمیٹ کر ہٹی تھی۔ ماں بننے کے ایک نئے احساس کےساتھ بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
بشکریہ ہم سب