انیس ہارون کی آپ بیتی میں فہمیدہ ریاض کا بہت ذکر ہے۔ دوستی تھی دونوں میں۔ ترقی پسند نظریات میں بھی دونوں ہم رائے اور ہم نوا تھیں۔ لینن سے بڑی عقیدت اور روس سے وابستگی تھی۔ ایک جگہ انیس لکھتی ہیں کہ انہیں اپنے شوہر سے بہت محبت تھی۔ میاں کا کام کرنے سے وہ خوشی محسوس کرتی تھیں۔ یہاں فہمیدہ انہیں لتاڑتی تھیں۔ ستی ساوتری جیسے طعنوں سے نوازتی تھیں۔
دراصل یہ سوچ فہمیدہ کے ہاں ہی نہیں بلکہ بیشتر ترقی پسند خواتین کے ہاں غالب نظر آتی ہے۔ میرے خیال میں یہ بچگانہ سوچ ہے۔ انسانوں میں محبت کا جذبہ اُن کی بنیادی جبلت ہے۔ اگر جوڑے میں پیار ہے تو ایک دوسرے کا کام کرنے میں کیا شرمندگی اور کیا توہین۔ چلئے عظیم مسلمان عورتوں کا اس ضمن میں کیا کردار تھا اُسے تو چھوڑئیے۔ اُن کے اپنے لیڈرلینن کی بیوی کرپسکایا جو رول ماڈل کی صورت میں ان عورتوں کے سامنے ہے۔ اُس کی ازدواجی زندگی کی جھلکیاں دیکھئیے کہ وہ بطور بیو ی کس قدر محبت کرنے والی، کتنی باوفا، ہمدرد، کتنی غم گسار، غریبی اور دُکھ کے دنوں میں ہر لمحہ ساتھ دینے والی شوہر کی طبیعت اور مزاج کی نرمی گرمی برداشت کرنے والی۔ کیسی عظیم عورت تھی۔
تو آئیے تھوڑا سا وقت کرپسکایا کے ساتھ گزاریں۔
محبت کب، کہاں اور کیسے ہوئی یہ بھی بڑی دلچسپ داستان ہے۔
محبت کب، کہاں اور کیسے ہوئی یہ بھی بڑی دلچسپ داستان ہے۔
پیٹرز برگ کے ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ میں پڑھنے والی لڑکی نادیزدا کرپسکایا خوبصورت چہرے والی جس کی آنکھوں میں کام کرنے اور صعوبتوں کو برداشت کرنے کاعزم تھا۔ سیدھے سنہری بالوں کے نیچے دماغ انقلابی تھا۔ تن پر معمولی سا لباس قناعت اور سادگی کا مظہر تھا۔ ایک سوشل ڈیموکریٹ گروپ کی طرف سے قائم سٹڈی سرکل میں مزدوروں کو فارغ وقت پڑھایا کرتی تھی۔
لینن نے قانون پڑھا پر وکالت کی بجائے انقلابی سرگرمیاں اس کا محور تھیں اور پیٹرز برگ کی زمین زیادہ انقلابی تھی۔ اس سٹڈی سرکل میں وہ نکولائی پیٹرو وچ کے فرضی نام سے لیکچر دینے لگا۔ لینن کی شخصیت ذرا متاثر کن نہ تھی۔ پراسکا علم، اُس کا انداز ِبیان، اُ س کے دلائل سیدھے دل میں اُترتے۔ وہ مارکس کی داس کیپٹل میں سے تھوڑا سا پڑھتا، اُس کے ہر پہلو کی وضاحت کرتا۔ پھر مزدورں سے اُن کے کام اور حالات کار کے بارے میں پوچھتا۔ سادہ سے لہجے، سادہ سی زبان میں روزمرّہ زندگی کی مثالوں سے ہی وہ مزدوروں کی زندگی کو سماج کے ڈھانچے سے جوڑ دیتا۔ اُس کے ہاں نظریہ اور عمل لازم وملزوم تھے۔ اورکرپسکایا شدید متاثر ہو چکی تھی۔
لیف لیٹس کی تیاری میں اُس کا گہرا انہماک، توجہ اور لینن سے صلاح مشورے کے لئے اُس کی طرف کرپسکایا کا غیر معمولی جھکاؤ اُس کے دلی جذبوں کا عکاس تھا۔ گرفتاریاں ہوگئیں۔ دونوں پکڑے گئے۔ لینن کو سائبیریا بھیج دیا گیا۔ اور جب اُسے کہیں اور جلاوطن کیا جانے لگا۔ وہ افسران بالا کے سامنے پیش ہوئی۔ اُس نے کہا۔
” پلیز مجھے شوشن شکوئے بھیج دو۔ “ لینن اُسے Shu۔ shu۔ shuکہتا تھا۔
اس کی درخواست مان لی گئی تھی۔ جب وہ وہاں پہنچی۔ اُس نے ہنس کر کہا۔
”تو اب بیاہ کرتے ہیں اور اس جہنم جیسی زندگی کو جنت میں بدلتے ہیں۔ “ اور دونوں کا بیاہ ہوگیا۔
اس کی درخواست مان لی گئی تھی۔ جب وہ وہاں پہنچی۔ اُس نے ہنس کر کہا۔
”تو اب بیاہ کرتے ہیں اور اس جہنم جیسی زندگی کو جنت میں بدلتے ہیں۔ “ اور دونوں کا بیاہ ہوگیا۔
وہ لینن کا سایہ تھی۔ سائبیریا کے بیانوں سے لے کر ”کریملن اور گورکی“ کے اُس کمرے تک جہاں اُس نے آخر ی سانسیں لی تھیں۔ زندگی جہد مسلسل تھی۔ معاشی مسائل نے ہمیشہ پریشان کیا۔ جینوا، لندن، میونخ، پیرس، سوئزرلینڈ کے سستے ترین علاقوں میں ایک ایک کمرے کے فلیٹ میں اُن کی جلا وطنی کا ساراوقت گزرا۔ بازار سے سودا سلف لانا، کھانا پکانا، کپڑے دھونا، پارٹی کے مسائل اور اُن کے جھگڑے۔ ”اسکرا“ (ہفت روزہ) کے اداراتی بورڈ میں ممبران کے درمیان ڈھیروں ڈھیر مسائل، توڑ جوڑ، ملک کے دگرگوں سیاسی حالات، ایسے میں وہ استقامت سے اُس کے ساتھ اس کا دستِ راست بن کر ہمیشہ کھڑی رہی۔ ”اسکرا“ کے مضامین کی پرُوف ریڈنگ کرتی۔ اندرون ملک کامریڈز کے خطوط کو پڑھتی۔ لینن کی ہدایات پر اُن کے جواب لکھتی۔
دودھ اور لیموں سے لکھے جانے والے ٹاپ کنفیڈنشل خطوں کو بھی پڑھنے کی ذمہ داری اُسی کی تھی۔ یہ خط پڑھنے بُہت دُشوار تھے۔ کانگریس کی میٹنگوں میں ممبران کی آپس میں تلخیاں، لنین کا شدید جذباتی تناؤ میں آنا، رُوسی جلاوطنوں کی ابتر حالت اورفنڈز کی کمی یہ سب وہ پریشانیاں اور مسائل تھے جو اکثرلینن کو اپ سیٹ کرتے۔ ایسے میں اُسے نارمل کرنا کرپسکایا کا وہ کام تھاجسے کرتے ہوئے اُس نے کبھی اکتاہٹ یا بیزاری محسوس نہیں کی۔
لینن کی صحت گرتی جا رہی تھی۔ او ر اُن کے پاس ڈاکٹر کا علاج کروانے کے لئے پیسے نہیں تھے۔ زبردستی کروپسکایا اُسے معائنے کے لئے لے گئی۔
اسے ”ہولی فائر“ ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر نے بتایا۔
اور کروپسکایا نے لمبی سانس بھرتے ہوئے ڈاکٹر سے مرض کی تفصیل سُنی اور علاج کیسے ہوتا کہ اُ ن کے پاس ڈاکٹر کی فیس کے لئے ایک گنی بھی نہیں تھی۔
اور کروپسکایا نے لمبی سانس بھرتے ہوئے ڈاکٹر سے مرض کی تفصیل سُنی اور علاج کیسے ہوتا کہ اُ ن کے پاس ڈاکٹر کی فیس کے لئے ایک گنی بھی نہیں تھی۔
دونوں گھر آئے۔ لینن کرسی پر بیٹھا چُپ چاپ، سنجیدگی اور تفکّر میں ڈوبا ہو اتھا۔ جب اُس نے کہا۔
”ایلیچ وہ گیت گاؤ جو تمہارا فیورٹ ہے۔ “
”ایلیچ وہ گیت گاؤ جو تمہارا فیورٹ ہے۔ “
مجھے تم سے پیار ہے۔ ایسا پیار جو کبھی ختم نہیں ہوگا
وہ مُسکرایا اور بولا۔ ”تم بڑی ظالم ہو۔ “
وہ مُسکرایا اور بولا۔ ”تم بڑی ظالم ہو۔ “
اور اُس شام اُس چھوٹے سے کمرے میں اُن د ونوں کی آوازوں نے مل کر بُہت سارے گانوں کی ٹانگیں توڑیں۔
” They did not marry us in the church۔ “
کوئی بھی گیت انہیں پورا نہیں آتا تھا۔ بس وہ گاتے رہے، ہنستے رہے اور اس ہنسی میں اپنے غم اور پریشانیوں کو تحلیل کرتے رہے۔ جہاں قوت ارادی زبردست ہو، محبت وپیار اور احساس کی فراوانی ہو تو پھر گھریلو ٹوٹکے بھی مسیحائی کا کردار ادا کر دیتے ہیں۔
لینن میوزک کا حد درجہ دلدادہ تھا۔ بہت مگن ہو کر موسیقی سُنتا۔ یاد داشت تویوں بھی کمال کی تھی۔ زمانوں پرانے گیت اور موسیقی کی دُھنیں اُن کے ساتھ وابستہ یادیں سبھی اپنی تفصیلی جزئیات کے ساتھ یا د ہوتیں۔ وائلن کا بُہت شوقین۔ پیانو بھی کمزوری تھا۔ بیھتوون کے سانٹیز Pathetique and Appassionata بُہت پسند تھے۔ اکثر جذب کے عالم میں نیم وا آنکھوں سے وہ اُداسی میں لپٹی مسکراہٹ لبوں پرلاتے ہوئے کرپسکایاسے کہتا۔
”جی چاہتا ہے میں appassionata کو روز سُنوں اورسُنتے سُنتے اس میں گُم ہو جاؤں۔ یہ کیسی جسم وجان میں حلُول کرتی سحر انگیز موسیقی ہے۔ پر میں اِسے ہر روز نہیں سُن سکتا۔ یہ میرے اعصاب پر اثر انداز ہوتی ہے۔ “
کلاسیک لٹریچر کا بڑا شائق۔ ٹالسٹائی کو بار بار پڑھتا۔ لُطف اُٹھاتا اورکہتا۔
”کرپسکایا یورپ میں ٹالسٹائی کا مقابلہ کِس سے کروگی؟
”کرپسکایا یورپ میں ٹالسٹائی کا مقابلہ کِس سے کروگی؟
اپنے ہاتھوں کو خوشی وسرشاری سے مَسلتے ہوئے وہ اپنے سوال کا جواب خود ہی دیتا۔
”کسی سے بھی نہیں۔ کوئی بھی اُس جیسا نہیں۔ “
”کسی سے بھی نہیں۔ کوئی بھی اُس جیسا نہیں۔ “
بیلے کی نسبت اوپیرا زیادہ پسند تھا پر اکثر پہلے ایکٹ کے بعد اُٹھ جاتا تھا۔ اور یہ بھی نہیں خیال کرتا تھا کہ وہ جو ساتھ بیٹھی ہے وہ اٹھنا نہیں چاہتی۔ تھیٹر بھی شوق سے دیکھتا۔ اچھی پرفارمینس ہمیشہ اُسے شدید متاثر کرتی۔ جب کبھی کرداروں پر بحث کے موڈ میں ہوتا تو اُسے بولنے نہ دیتا۔
لکھنے میں رفتار حیرت انگیز تھی۔ تحریر ہمیشہ لوجک پر ہوتی۔ تصیح کی ضرورت بہت کم پڑتی۔ تقریر ہمیشہ سادہ اور جوش وجذبے سے پُرہوتی۔ بولنے کا انداز بھی سادہ ہوتا۔ خالصتاً رُوسی سٹائل۔ یہ جذباتی طور پر چارج کرتی پر مصنوعی نہ لگتی۔ لفظوں کا انتخاب ہمیشہ اچھا اور خوبصورت ہوتا۔
وہ ہمیشہ جذبے کی بھرپور سچائی سے بات کرتا خواہ یہ نجی گفتگو ہوتی یاپبلک میں کوئی تقریر۔ جب بھی وہ کمرے میں چکر کاٹنے لگتا۔ اُس کی خو د سے باتیں یا سرگوشیاں شروع ہوجاتیں اوروہ جذباتیت کے بہاؤ میں آ جاتا۔ کرپسکایا کا کہنا تھا۔
میں سمجھ جاتی تھی اور اُس کے پاس ہوتے ہوئے بھی خود کو غائب کر لیتی۔
سیر کے دوران بھی اگر مجھے اس امرکا احساس ہو جاتا تو میں اُسے کبھی ڈسٹرب نہیں کرتی تھی۔ ہونٹوں کو سی لیتی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اگر اُس کا جی چاہتا وہ تفصیلی بات کرتا۔ ایسے وقت میں وہ بحث اور مداخلت کو قطعی پسند نہیں کرتا تھا اور میں ہمیشہ اس کا خیال رکھتی تھی۔ جب بھی وہ باہر کہیں کسی ڈیبیٹ پر جاتا، اپنی واپسی پر اکثر وہ افسردہ، خاموش اور کم ہمت سا ہوتا۔ اور ایسے وقت میں مَیں سوالات کرنے سے گریز کرتی۔ اکثر بعد میں وہ مجھے تفصیلاً سب کچھ بتاتا۔
اس کی بیماری کے دوران ڈاکٹراُسے پڑھنے لکھنے سے منع کرتے، تب وہ مجھ سے کہتا ”یہ تو زیادہ نقصان دہ ہے۔ وہ مجھے سوچنے سے روک نہیں سکتے اور نہ میں خود کو ایسا کرنے سے باز رکھ سکتا ہوں۔ “
اُس کی شخصیت میں اثر پذیری کا عنصر بُہت زیادہ تھا۔ ردّعمل ہمیشہ بڑا طوفانی ہوتا۔ برسلز میں پلیخانوف کے ساتھ ایک جھگڑے میں جب وہ فوراً پلیخا نوف کے طنزیہ ریمارکس پر جوابِ آں غزل لکھنے بیٹھا۔ اُس نے کٹیلے لہجے میں کہا تھا۔
”بلا شبہ میری حیثیت ایک گھوڑے سے زیادہ نہیں۔ میں کوچوان پلیخانوف کے گھوڑوں میں سے ایک ہوں۔ انتہائی صبر والا گھوڑا۔ لیکن جس طرح وہ مجھے زِچ کرنے پر تُلا ہوا ہے ایسے میں صبر والا گھوڑا اُسے پھینکے گا نہیں تو اور کیا کرے گا۔ “
کرپسکایا کمرے میں کھڑی اِس سنگین صورت حال کو دیکھتی تھی کہ وہ کس قدر شدید دباؤ میں ہے۔ اس میں کو ئی شُبہ نہیں تھا کہ پلیخا نوف بُہت باصلاحیت اور گہری دانش کا مالک تھا۔ لیکن انقلابی جبلّت سے خالی تھا۔ لینن حقیقت پسند انقلابی تھا اور اُسے گلہ تھا کہ پلیخانوف کا ڈرافٹ انقلابی عمل کی راہنمائی کے لئے قطعی موزوں نہیں۔ میں نے اُس کے کندھے پر دھیرے سے ہاتھ رکھا اور اُسے سیر کے لئے چلنے کی ترغیب دی۔
آؤ کیتھیڈرل کی طرف چلتے ہیں۔ اس نے کہا۔
لباس سے لے کر کھانے تک میں ہمیشہ سادگی ہوتی۔ لنین کو دہی بُہت پسند تھا۔ سٹرابیری سے چڑ تھی۔ کریملن میں جب وہ سیاہ وسفید کا مالک تھا، اُس کے رات کے کھانے اور دوپہر میں چائے، بلیک بریڈ، مکھن اور پینر ہوتا۔ اگر کبھی کوئی غیر ملکی مہمان آجاتا، میٹھے کی ضرورت پڑتی تووہ اور لینن کی بہن بھاگتی کہیں کوئی جار ملتا۔ تھوڑا سا جام یا جیلی اُس کے اندر ہوتی۔ بس تو اسی سے تواضع ہو جاتی۔
قحط سالی کے دنوں میں جب کارکنوں کو کھانا راشن پر ملتا تھا۔ ملک بھر سے لینن کو گوشت، پھلوں، سبزیوں اور بیکری کی اشیاء تحائف کی صورت آتیں جنہیں وہ ہمیشہ فوراً اسپتالوں اور بچوں کے سکولوں میں بجھوا دیتا۔
ایک بار اُس کی بہن ماریا ایلنچنا نے کہا۔
”ولوڈایا تم کچھ اپنے لئے بھی رکھ لیا کرو۔ تم بھُوک سے کمزور ہوتے جا رہے ہو۔ انقلاب کی کامیابی کو تمہاری صحت کی ضرورت ہے۔ “
کرپسکایا نے کہا۔ ”مت کہو۔ یہ کچھ نہیں کھا سکتا کہ جانتا ہے کارکن لوگ اور بچے بھوکے ہیں۔ “
کرپسکایا نے کہا۔ ”مت کہو۔ یہ کچھ نہیں کھا سکتا کہ جانتا ہے کارکن لوگ اور بچے بھوکے ہیں۔ “