فاحیل ہاشمی
سائنس اور عقائد بظاہر ایک دوسرے سے بالکل متضاد ہیں۔ سائنس میں جاننے، کھوج لگانے، اور پرکھنے کی ایک نہ ختم ہونے والی تڑپ ہے۔ عقیدہ سکوت، جمود اور ٹہراؤ کا نام ہے۔ سائنس میں کچھ بھی محترم نہیں۔ عقیدے میں احترام سے گردنیں اور آنکھیں جھکی رہتی ہیں۔ سائنس سوال سے طاقت حاصل کرتی ہے۔ عقیدہ سوال سے کمزور پڑتا ہے۔ سائنس انسان کے لیے کائنات میں نئی پناہ گاہیں ڈھونڈ رہی ہے۔ عقیدے نے اسی زمین کو انسان کے لے تنگ کر دیا ہے۔ سائنس کا شک کے بغیر، اور عقیدے کا شک کے ساتھ گزارہ نہیں۔
پر عقیدہ ہے کیا؟
کیا اس کی تعریف یوں ہو سکتی ہے کہ ”کسی ایسے دعوی پر یقین کرنا جسے ثابت نہ کیا جا سکتا ہو“؟ اگر اس تعریف کو درست مان لیں تو سائنس اور عقائد پر دو طرح سے بات ہو سکتی ہے۔ ایک تو ہم سائنس میں عقائد کی حیثیت اور اہمیت کو سمجھنے کی سعی کر سکتے ہیں، اور دوسری طرف ہم عقائد کی تطہیر اور اصلاح کے لیے سائنس کے طریقہ کار سے مدد لے سکتے ہیں۔
مگر سائنس پر بات کرنے سے پہلے سائنس کے ملاؤں اور ان کے پیروکاروں کی خدمت میں کچھ گزارشات پیش کرنا ضروری ہیں۔
1) سائنس کبھی کسی نظریے یا تھیوری کو درست ثابت نہیں کرتی۔ سائنس صرف کسی تھیوری کو غلط ثابت کر سکتی ہے، اور کرتی ہے۔ کوئی بھی تھیوری جو مشاہدات اور تجربات کو احسن طریقے سے بیان کر سکے وہ اس وقت تک درست سمجھی جاتی ہے جب تک کہ وہ غلط ثابت نہ ہو جائے، یا اس سے جامع تھیوری زیادہ بہتر انداز سے زیادہ مشاہدات کو بیان کر سکے۔
2) سائنس ہمیشہ ایک آئیڈیل سسٹم کی بابت بات کرتی ہے، اور اس کی کہی ہوئی باتوں کی تصدیق کی کسوٹی صرف تجربہ ہے۔ اب دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ آئیڈیل سسٹم نہ تو موجود ہوتے ہیں، اور نہ ہی کوئی آئیڈیل تجربہ کرنا ممکن ہے۔ لہٰزا ایک تجربہ کسی غلط تھیوری کے غلط ہونے کی نشاندہی تو کر سکتا ہے، پر صحیح تھیوری کی موزونیت پر ایک حد تک مشاہدہ ہی فراہم کر سکتا ہے۔ اور اس حد سے آگے تھیوری کو آزمانے کے لیے مزید تجربات کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔
اب آئیں اپنے موضوع پر۔ سائنس کے عقائد کچھ ایسے دعوے ہیں جنہیں ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر آئنسٹائن کا دعوی کہ خلا میں روشنی کی رفتار ہر کسی کے لیے ایک ہے چاہے وہ خود کسی بھی رفتار سے حرکت کر رہا ہو۔ یا کوانٹم میکینکس کا دعوی کہ ہر تنہا کوانٹم سسٹم کو ایک ویکٹر vector کے ذریعے بیان کیا جا سکتا ہے۔ یا نیوٹن کا دعوی کہ کسی جسم پر لگائی گئی قوت اس کی ولاسٹی velocity کی تبدیلی کی رفتار کے متناسب ہوتی ہے۔
ان سب باتوں کو ثابت کرنا ممکن نہیں، ہاں ایسے تجربات کرنا ممکن ہے جو ان باتوں، یا ان کی بنیاد پر بنائی گئی تھیوریز سے اخذ کی گئی پیش گوئیوں کی حمایت میں شواہد فراہم کریں۔ یہ شواہد ان ”سائنسی عقائد“ کی راستی پر ہمارے یقین کو مستحکم کرتے ہیں، اور انہی شواہد کی بنیاد پر سائنس کی ایسی شاندار عمارت کھڑی ہے جسے انسان کی معراج کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔
اب دیانتداری کہتی ہے کہ مذہبی عقائد کے لیے بھی ثبوت کے تقاضے کی بجائے ایسے شواہد ڈھونڈیں جائیں جو ان عقائد کی درستی بابت رہنمائی کریں۔ اور حقیقت میں ایسے شواہد موجود ہیں۔ فرق یہ ہے کہ یہ شواہد موضوعی subjective نوعیت کے ہیں، اور معروضی objective طور پر ان کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک منظر کو بہت سے لوگ دیکھ سکتے ہیں، پر ہر کوئی منظر کی خوبصورتی کو ایک طرح سے محسوس نہیں کر سکتا۔ اب نہ تو منظر کی خوبصورتی کا انکار ممکن ہے، اور نہ ہی یہ خوبصورتی کسی کو زبردستی، دلیل، یا منت سماجت کے ذریعے باور کروائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح سے مذہبی عقائد کے لیے دستیاب شواہد کو ہر کوئی ایک طرح سے نہیں پرکھ سکتا۔ کسی ایک کی اپنے خدا کے ہونے یا نہ ہونے کی دلیل کسی دوسرے کے کام نہیں آ سکتی۔
درحقیقت یہ سائنس اور مذہب کا ایک بہت واضح فرق ہے، جس پر عام طور پر نظر نہیں ڈالی جاتی۔ ایک کا تعلق انسان کے معروضی معاملات سے ہے۔ ان معاملات پر دلیل، تجربے، اور مشاہدے کے ذریعے متفق ہوا جا سکتا ہے، صحیح اور غلط کی تفریق کی جا سکتی ہے، پیمانے مقرر کیے جا سکتے ہیں، پیمائشیں لی جا سکتی ہیں، اور مل جل کر ترقی اور ٹیکنالوجی کا سفر طے کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف موضوعی معاملات میں ہر کوئی تنہا ہے۔ ہر کسی کو اپنے تجربے اور مشاہدے کو خود پرکھنا ہے، اپنے غلط اور صحیح کے درمیان فیصلہ خود کرنا ہے، اپنا سچ خود ڈھونڈنا ہے، اور اپنے خدا کو ماننے یا اس کے انکار کی اپنی دلیل خود تراشنی ہے۔
موضوع کے آخری حصے کا سوال یہ ہے کہ سچ کی تلاش کا سفر کیسے شروع کیا جائے؟ اور کیا اس سفر کی ضرورت ہے بھی کہ نہیں؟ کیا جو سچ ہمارے ماں باپ کو ان کے ماں باپ نے بتایا، اور جو اس طرح ہم تک پہنچا وہی اصل سچ نہیں؟ کیا سنی سنائی روایات اور رٹے رٹائے دلائل سچ کی نشاندہی نہیں کرتے؟ ان سوالوں کا جواب بھی ہر کسی کو اپنے لیے خود ڈھونڈنا ہے۔ اور اگر کوئی سچ کی تلاش کا سفر شروع کرنا چاہے تو وہ سائنس کے طریقہ کار سے مدد لے سکتا ہے۔
سائنس کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے اور انہیں درست کرنے میں فراخدل ہے۔ سائنس کی اپنے کسی بنیادی نظریے سے ایسی کوئی عقیدت نہیں کہ وہ اسے ہر حال میں صحیح ماننے پر بضد ہو۔ سائنس کسی نظریے کو اسی وقت تک ہی عزیز رکھتی ہے جب تک اس نظریے سے جنم لینے والی تھیوریز مشاہدات، اور تجربات کے موافق ہوں، اور کوئی ایک ناموافق تجربہ یا مشاہدہ کئی صدیوں سے تسلیم شدہ تھیوری کو رد کرنے کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔
اور اس ایک تجربے کے ساتھ وہ سب ’سائنسی عقائد‘ جو اس تھیوری سے وابستہ تھے کالعدم قرار پاتے ہیں، اور نئے عقائد کی تلاش کا کام شروع ہو جاتا ہے۔ یہی کام انسان اپنے مذہبی عقائد کے بارے میں بھی کر سکتا ہے اگر وہ اپنے اندر اپنے عقائد پر سوال کرنے کی جرات پیدا کرے۔ سچ کا سفر شروع کرنے کے لیے انسان کو اپنے عقائد پر اندھادھند یقین کے بجائے، انہیں اپنی سمجھ کے مطابق پرکھنا چاہیے۔ ان عقائد سے وابستہ نظریات، معاملات، عبادات، اور اخلاقیات کا جائزہ لینا چاہیے۔
اور اگر اس دوران کوئی ایسی بات سامنے آئے جس پر اس کا دل مطمئن نہ ہو تو یہ وقت ہے اپنے عقائد کا سنجیدگی سے معائنہ کرنے کا، اور ضرورت پڑنے پر انہیں رد کر کے نئے عقائد کی تلاش شروع کرنے کا۔ ایسا کرنے سے گبھرانا نہیں چاہیے، کیونکہ غیر مطمئن دل کے ساتھ شاید صحیح عقائد بھی فائدہ نہ پہنچا سکیں، اور صدق دل سے صحیح عقائد کی تلاش حادثاتی طور پر صحیح عقائد رکھنے سے بہتر ہے۔
سچ کا ایسا سفر اختیار کیا جائے تو ممکن ہے کہ انسان ان عقائد تک پہنچ جائے جو سوال سے کمزور نہ پڑتے ہوں۔ جنہیں شک سے کوئی گریز نہ ہو۔ جہاں احترام واقعی میں قابل احترام ہو۔ جہاں سکوت اور ٹہراؤ ایک دشوار راہگزر سے گزر کر منزل پا لینے جیسا ہو۔ اور جو عقائد اس زمیں کو انسان کے لیے تنگ نہ کریں۔