ثنا بتول درانی
پاکستانی تہذیب قدامت پسند تہذیب مانی جاتی ہے۔ یہاں بہت سے معاملات ایسے ہیں جو انسانی مسائل ہونے کے باوجود محض اس لیے زیر بحث نہیں لائے جاتے کہ ان سے معاشرتی اخلاقیات پہ ضرب پڑتی ہے۔ ایک بہت ہی بد صورت اور کریہہ مسئلہ بچوں پہ ہونے والا جنسی تشدد ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ معاملہ نیا ہے۔ مسئلہ پرانا ہے لیکن اسے کارپٹ کے نیچے اسی لیے دبایا گیا کہ اس سے سو کالڈ اخلاقی معاشرے پہ سوالات اٹھتے ہیں۔ پچھلے دنوں چلنے والی می ٹو کی مہم نے جہاں خواتین کو زبان دی کہ وہ اپنے خلاف ہونے والی زیادتوں پہ بات کر سکیں۔
وہیں کچھ لوگ اس بات پہ اعتراض کرتے بھی نظر آئے کہ اس واقعے کا ذکر کرنے کا فائدہ جو کبھی بچپن میں ہوا ہو یا اسے سالوں بیت چکے ہوں۔ یہ کہنے والے بے حس کہلائے جا سکتے ہیں ظلم چاہے جب بھی ہوا ہو ظلم ہی کہلائے گا وقت بدلنے سے اس کی حقیقت نہیں بدلتی۔ معاملہ صرف خواتین سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس طرح کی تکلیف کا سامنا مردوں کو بھی ہو سکتا ہے۔ بلکہ بہت سے لوگ اس کا سامنا اپنے بچپن میں یا بعد زندگی کے کسی بھی مرحلے پہ ہو سکتا ہے۔
ہمارے سماج میں بچوں اور بچیوں سے ہونے والی بد اخلاقی پہ آنکھیں اس لیے بند کر لی جاتی ہیں کہ ہمارے ہاں ویکٹم کو ہی بے عزت سمجھا جاتا ہے اور اس میں یہ خیال بہت شروع سے پیدا کر دیا جاتا ہے کہ اس آبرو ختم ہو گئی ہے۔ اسے احساس شرمندگی کے ساتھ جینا ہے۔ گویا مظلوم پہ ہی سارا الزام تھوپا جاتا ہے۔ جب کہ مجرم کو شک کا فائدہ دیا جاتا ہے۔ کیونکہ مجرم عموما قریبی رشتہ دار ہوتا ہے اور اس سے رشتوں میں دراڑیں پڑتی ہیں۔
کچھ صورتوں میں واضح بات سامنے ہونے کے باوجود اس سے صرف نظر کیا جاتا ہے کہ یہ مجرم کوئی اجنبی کم ہی ہوتا ہے زیادہ تر قریبی رشتوں یا جاننے والوں میں سے ہوتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا کہ خونی رشتوں میں بھی یہ معاملات چلتے ہیں جسے ہم محض پیار کا نام دے کے ان دیکھا کر دیتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو کیوں نہیں سکھاتے کہ ان کے جسم کے کون سے حصے ہیں جنہیں چھونا غلط ہے۔ بلکہ یہ کیوں نہیں سکھاتے کہ انہیں کس حد میں کسی کے قریب ہونا ہے۔ جواب سادہ سا کہ اس سے بچے میں بے اعتباری پیدا ہوتی ہے۔ لیکن کبھی سوچا کہ یہ اعتبار آپ کے بچے کی شخصیت کو کس قدر مسخ کر سکتا ہے۔ سوچیے۔
پھر ایک معاملہ احترام کا ہے۔ اپنے بچوں کو احترام کرنا ضرور سکھائیے لیکن ڈنڈے کے زور پہ نہیں۔ کہیں یہ احترام زور زبردستی کا ہے۔ تو کہیں برین واشنگ کے ذریعے۔ کیا جنسی تشدد کے واقعات احترام کے رشتوں کے ساتھ نہیں جڑے۔ ان میں اساتذہ، بزرگ یا وہ بڑے شامل نہیں ہوتے جن پہ اندھا دھند اعتماد کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں صرف وہی واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جن میں ویکٹم جان سے جاتا ہے۔ اور باقی کے جو خاموشی سے ہماری ناک کے نیچے ہوتے ہیں ان پہ کوئی توجہ نہیں دیتا۔
پھر مجرم کو پکڑنا سزا دلوانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس میں بھی کوئی ایک آدھ کیس ایسا ہے جس میں مجرم کو سزا دی گئی۔ زینب کا کیس ایسا ہی تھا لیکن اس میں بھی کچھ لوگوں کا موقف تھا کہ سزا غلط ہے شاید ریپ کرنا اور قتل کرنا ان کی نظر میں بہت معمولی بات ہے۔ اسی ننگے معاشرے میں جہاں لوگوں نے تہذیب کو چھوا تک نہیں جہاں ویکٹمز کے لیے ایک ری ہیب سینٹر (بحالی مرکز) نہیں ہے وہاں انسانیت کے علمبردار لفظوں کے کھلاڑی مجرم کی نفسیات سدھارنے کے لیے سوشل میڈیا پہ چیخ و پکار کرتے پائے گئے۔
اس مسئلے کی وجو ہات بے تحاشا ہو سکتی ہیں۔ سب کا احاطہ ممکن نہیں لیکن ایک بڑی وجہ بچوں کو اپنا نہ سمجھنا ہے۔ بچہ سب کا ہوتا ہے اسے کوئی مسئلہ ہو تو اردگرد لوگوں کا فرض ہے کہ اس کی مدد کریں۔ لیکن ہمیں بچوں کو اون کرنا نہیں آتا۔ ہم دوسروں کے بچوں کو اپنامستقبل نہیں سمجھتے۔ ہم نہیں سوچتے کہ یہ ہمارا بچہ ہے۔ اس کے مسائل کو نہیں سمجھتے۔ ایک شہری ہونے کی حیثیت میں یہ نہیں سمجھ پاتے کہ ہمیں انیں اون کرنا ہے اور کسی بھی غیرمعمولی سرگرمی کو دیکھ کے اسے رپورٹ کرنا ہے۔
دوسری بات احترام کا غلط تصور ہے۔ ڈنڈے کے زور پہ احترام اس کی بڑی وجہ ہے کہ بچہ کسی بڑے کی اپنے ساتھ کی گئی زیادتی کو نہیں بتا سکتا۔
تیسرا مسئلہ ویکٹم کو برا سمجھا جانا ہے۔ اس کا سماج سے یہ سلوک کہ گویا اس کی عزت ہی نہیں ہے۔ اسے خاموش رہنے پہ مجبور کر دیتا ہے۔
چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جو بچوں کا ڈیٹا اس طرح محفوظ کرے کہ گمشدگی کی صورت میں اسے جلد از جلد ریکور کروایا جا سکے۔
تیسرا مسئلہ ویکٹم کو برا سمجھا جانا ہے۔ اس کا سماج سے یہ سلوک کہ گویا اس کی عزت ہی نہیں ہے۔ اسے خاموش رہنے پہ مجبور کر دیتا ہے۔
چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جو بچوں کا ڈیٹا اس طرح محفوظ کرے کہ گمشدگی کی صورت میں اسے جلد از جلد ریکور کروایا جا سکے۔
سروائیورز کی نفسیاتی مدد کے لیے کوئی باقاعدہ مرکز نہیں ہے۔ نہ ہی سماجی ادارے اس میں کوئی مدد کرتے ہیں۔
بنیادی بات سماج میں موجود بوسیدہ تصورات ہیں جن کی وجہ سے یہ ایسے واقعات تواتر سے ہوتے ہیں۔
بنیادی بات سماج میں موجود بوسیدہ تصورات ہیں جن کی وجہ سے یہ ایسے واقعات تواتر سے ہوتے ہیں۔
بچے ہمارا مستقبل ہیں انہیں اون کرنا، ان کا خیال رکھنا کسی حادثے کی صورت میں ان کی بحالی کے لیے نفسیاتی مدد کرنا، انہیں مناسب جنسی تعلیم دینا اور ساتھ ہی اپنے لوگوں کو ان سب باتوں کی اہمیت سمجھانا ہماری ذمہ داری ہے۔ ایک حسین مستقبل کے لیے کریٹکل سوچ اور تخلیقی ذہن والے بچوں کی تربیت ضروری ہے نہ کے اپنے نفسیاتی مسائل سے الجھے، خوشیوں سے محروم بچوں کی۔ یہ ہماری اخلاقی و سماجی فرائض ہیں ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ہم پہ فرض ہے کہ اپنے مستقبل کی حفاظت کریں۔