وسعت اللہ خان
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے یونیسف کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ یکم جنوری دو ہزار انیس کو پاکستان میں پندرہ ہزار بچوں کی ولادت رجسٹر کی گئی۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ملک جس کی آبادی پہلے ہی بائیس کروڑ کا ہندسہ چھو رہی ہے، ہر ماہ ساڑھے چار لاکھ اور سالانہ چون لاکھ کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔
یعنی پاکستان کی آبادی میں سالانہ ناروے کی کل آبادی ( چون لاکھ ) کے برابر اضافہ ہو رہا ہے۔یہ الگ بات کہ اقوامِ متحدہ کی انسانی ترقی کے معیار کی تازہ فہرست میں سرِ فہرست ناروے ہے اور پاکستان کا شمار ایک سو چھہتر ممالک کی فہرست میں ایک سو پچاس ویں نمبر پر ہے۔
حالات اتنے دگرگوں ہیں کہ جلد تدارک نہ ہوا تو ایک چھوڑ سو عمران خان بھی جنم لے لیں تو بھی تبدیلی نہیں آ سکتی۔آبادی میں غیر منصوبہ بند اضافہ ایسے ہی ہے جیسے آپ اپنی ضرورت کا ٹب بھرنے کے لیے وسائل کا پورا نل کھول دیں مگر ٹب کی تہہ کا سوراخ بند کرنا بھول جائیں یا اسے ضروری نہ سمجھیں۔اس اصول کی بنیاد پر صرف سادہ گنتی بھی مسئلے کی سنگینی سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
اس وقت پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ ہے۔اگر ہر سال چون لاکھ نفوس کا اضافہ ہو رہا ہے تو آبادی گویا ڈھائی فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔اس وقت پاکستان میں اقتصادی ترقی کی شرحِ نمو تین فیصد سالانہ ہے اور اگلے تین برس تک شرحِ نمو کا اندازہ کم و بیش یہی ہے۔
اگر آبادی میں ڈھائی فیصد سالانہ اضافے کو تین فیصد سالانہ شرحِ نمو میں سے منہا کر دیا جائے تو حاصل نصف فیصد بنا۔یعنی آبادی میں اضافے کی شرح کے اعتبار سے عملاً پاکستان کی ترقی کی شرح تین فیصد نہیں بلکہ نصف فیصد ہے۔اس نصف فیصد میں سے ریاستی خرچے بھی نکالنے ہیں،دفاعی اخراجات کا بھی خیال رکھنا ہے، قرضوں کا سود بھی ادا کرنا ہے اور روزمرہ عوامی مسائل کی اشک شوئی بھی ضروری ہے۔
ان حالات میں کوئی بڑے سے بڑا ماہرِ معیشت سمجھا دے کہ سالانہ نصف فیصد معاشی نمو کے ساتھ یہ سارے خرچے منہ مانگی شرائط کے تحت حاصل ہونے والے قرضوں کے بغیر کیسے پورے ہو سکتے ہیں؟ لہذا کبھی ہم صبح ہی صبح دروازہ کھٹکھٹا کے سعودیوں کی نیند خراب کرتے ہیں، کبھی عرب امارات کی نگاہِ التفات کے لیے باچھیں چیر لیتے ہیں تو کبھی چین کے سامنے سوالیہ صورت لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ٹی وی پر ترانے دکھاتے ہیں، ہم زندہ قوم ہیں پایندہ قوم ہیں وغیرہ۔۔۔۔۔
حالات جس طرف دھکیل رہے ہیں اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلے گا کہ گیارہ برس بعد ( دو ہزار تیس ) چین، بھارت اور انڈونیشیا کے بعد پاکستان سب سے گنجان ملک ہوگا۔یہ خبر سن کر ہم چاہیں تو مزید ڈیپریشن میں مبتلا ہو سکتے ہیں یا پھر یہ سوچ سوچ کر خوش ہو سکتے ہیں کہ الحمدللہ ہر سال پاکستان میں مسلمانوں کی تعداد میں پچاس لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔
کوئی تو فہرست ہے جس میں پاکستان کا شمار پہلے پانچ ممالک میں ہو رہا ہے بھلے وہ گنجانیت ہی کیوں نہ ہو۔ویسے بھی بچے اللہ کی دین ہیں۔وہی پیدا کرتا ہے وہی انتظام بھی کرتا ہے۔
عرض بس اتنا کرنا ہے کہ اگر بچے اللہ کی دین ہیں تو عقل بھی اللہ ہی کی دین ہے۔مگر اس عقل کا استعمال اللہ تعالی نے انسان پر چھوڑ دیا ہے۔آبادی میں اضافہ اس وقت خدا کی نعمت ہے جب ہر پیدا ہونے والے بچے کو خدا کی زمینی نعمتوں میں سے بھی حصہ ملے اور اس کی صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار لانے کے مواقعے میسر ہوں۔
اس کے لیے آبادی کی صحت، تعلیم اور ہنر مندی میں صبر آزما سرمایہ کاری کرنا پڑتی ہے۔آبادی میں بے تحاشا اضافہ روکنے کے لیے تین عشروں تک فی جوڑا ایک بچے کی پالیسی پر عمل کرنا اور کرانا پڑتا ہے تب کہیں جا کے تیسری دنیا کا سب سے گنجان اور پسماندہ ملک چالیس پچاس برس میں دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی سپر پاور کے درجے تک پہنچتا ہے۔
تو کیا ہم بھی اپنی آبادی کو چین کی طرح کارآمد ہیومین کیپٹل میں تبدیل کرنے کی حکمتِ عملی بنا رہے ہیں یا صرف حکمتِ عملی بنانے کی خواہش میں مرے جا رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے غریبوں کے ہاں زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں۔جب آپ کو پتہ چل ہی گیا ہے تو غریبوں کو ایسی ترغیبات کیوں نہیں دیتے کہ وہ بچوں کی تعداد بڑھانے کے بجائے معیار بڑھانے کے بارے میں سوچیں۔
ہاں غریب زیادہ بچے پیدا کرتا ہے کیونکہ اس کے لاشعور میں عدم تحفظ بسا ہوا ہے۔یعنی جتنے بچے ہوں گے اتنے کمانے والے ہاتھ ہوں گے۔بچے زیادہ ہونے چاہئیں تاکہ کچھ بیماری یا حادثات میں مر بھی جائیں تب بھی ایک دو تو زندہ رہیں۔لڑکیاں کم اور لڑکے زیادہ ہونے چاہئیں کیونکہ لڑکیاں بوجھ اور لڑکے کماؤ ہوتے ہیں۔
اچھی یا بری تعلیم دلانے کا کیا فائدہ روزگار تو ملے گا نہیں، نہ میرے پاس سفارش ہے نہ رشوت کے پیسے، میرے بس میں تو صرف بچے پیدا کرنا ہے۔ذرا بڑے ہوں گے تو کام پر لگا دوں گا۔کم ازکم روٹی کا آسرا تو پکا ہو جائے گا۔
اگر غریبوں سے یہ عدم تحفظات چھین لیے جائیں تو شائد اگلی نسلوں کے معیار کو تحفظ مل جائے۔مگر سب کہنے کی باتیں ہیں۔جب آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی تب وسائل کی تقسیم کتنی منصفانہ تھی جو اب آبادی بڑھنے سے سہولتوں کا کال پڑنے کی فکر کروں۔اب یہی دیکھ لیں کہ جب کراچی کی آبادی پینتیس لاکھ تھی تب بھی تین بڑے سرکاری اسپتال تھے۔آج ڈھائی کروڑ ہے تب بھی وہی تین بڑے سرکاری اسپتال ہیں۔یہی حال تعلیمی سہولتوں کا ہے۔
ریاست نے ہر بنیادی حق سے ہاتھ اٹھایا تو نجی شعبہ اس خلا میں گھس گیا۔نجی شعبے کو جتنے بیمار ملیں اتنا ہی اچھا ہے، جتنے بچے ہوں اتنی ہی تعلیمی سہولتیں فروخت ہوں گی، اتنی ہی سیٹھ کی آمدنی بڑھے گی۔یعنی جب ریاست آبادی کو ایک کارآمد انسانی سرمائے میں تبدیل کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو پھر یہی خام انسانی کیپیٹل سرمایہ کار کے منافعے کے لیے بطور خام مال استعمال ہوتا ہے۔اور خام مال جتنا وافر ہو اتنا ہی سستا اور اتنا ہی منافع بخش۔
جیسے ریاست کو یہ نہیں معلوم کہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ کیسے روکنا ہے اور جو بچے پیدا ہو چکے ہیں انھیں کارآمد کیسے بنانا ہے،اسی طرح میں بھی نہیں جانتا کہ اس کالم کا اختتام کہاں کروں لہذا اسے ریاستی ذمے داریوں کی طرح راستے میں ہی چھوڑ رہا ہوں۔اللہ مالک ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس