سوشل میڈیا پر نقصان دہ مواد کے بچوں پر اثرات سے متعلق خدشات بڑھ رہے ہیں، آئیے اس طریقہ کار پر نظر ڈالتے ہیں جس کے ذریعے سے والدین نہ صرف بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر نظر رکھ سکیں گے بلکہ اس بات کا بھی تعین کرپائیں گے کہ ان کے بچے انٹرنیٹ پر کتنا وقت گزارتے ہیں۔
اپنے بچوں کو آن لائن پر گذاری جانے والی زندگی سے دور رکھنا ایک ایسی جدوجہد ہے جس سے اس مشکل میں مبتلا بہت سے والدین واقف ہوں گے۔
ہمارے نوجوان متعدد گھنٹے انسٹاگرام پر ’لائکس‘ حاصل کرنے میں صرف کردیتے ہیں اور بعض اوقات انھیں سائبر ہراسگی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنا وقت گیمز کھیلنے، ’یوٹیوب انفلوئنسرز‘ کی ویڈیوز دیکھنے یا واٹس ایپ پر پائے جانے والے دوستوں کے مختلف گروپس پر بات چیت کر کے گزارتے ہیں۔ ؟
سوشل میڈیا پر پائے جانے والے مواد کی چھانٹی کرنے والا سافٹ ویئر برسوں سے موجود ہیں مگر والدین اکثر اوقات ٹیکنالوجی سے گھبراتے ہیں جس کے باعث وہ سافٹ ویئر کا ٹھیک سے استعمال نہیں کر پاتے۔
اکثر اوقات بچوں کو اپنے اکاؤنٹس کے پاس ورڈز بھی والدین کے حوالے کرنا پڑتے ہیں جو گھر میں لڑائی کا سبب بنتا ہے۔
مگر اب مارکیٹ میں نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے والدین کو ڈیجیٹل کنٹرول دینے کا وعدہ کیا جا رہا ہے جس کے باعث والدین باآسانی بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھ پائیں گے۔ سرکل کے علاوہ ڈِزنی، کوالا سیف اور آئکڈز ان سسٹمز کے نام ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ گھر میں موجود تمام ڈیجیٹل پراڈکٹس کو سمارٹ فون ایپ پر چند کلکس کے ذریعے سے کنٹرول کر سکتے ہیں۔
دیگر نئی مصنوعات آپ کے موجودہ گھریلو وائی فائی راؤٹر سے کنیکٹ کر کے استعمال کی جا سکتی ہیں۔
سرکل نامی سسٹم میں آپ ایک سفید کیوب کو بجلی کے ساکٹ میں لگا دیتے ہیں اور وہ فوری طور پر آپ کے گھر کے وائی فائی سے کنیکٹ ہوئے فون، لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ وغیرہ کو فہرست کی شکل میں دکھاتا ہے اور مختلف انداز سے ان مصنوعات کو کنٹرول کرنے کے طریقے پیش کرتا ہے۔
اس بات کا پتا چلانا کہ کون کس ڈیوائس کا مالک ہے ذرا مشکل ہے۔ ابتدا میں تو میں نے اپنے شوہر کے فون کو غلطی سے بلاک کر دیا جس کے بعد ظاہر ہے وہ کافی آگ بگولا ہو گئے۔ لیکن بعد میں جب میں نے تمام مصنوعات کو ان کے میک ایڈریس سے پہچاننا شروع کردیا تو ان کو کنٹرول کرنا آسان ہو گیا۔
مواد کی چھانٹی کے غرض سے بچوں، نوجوانوں اور بالغ لوگوں کے لیے مختلف فلٹرز کا استعمال کیا جا سکتا ہے جو جوئے، ڈیٹنگ کے علاوہ فحش مواد کو بھی بلاک کر دیتا ہے۔
آپ مخصوص ایپس اور ویب سائٹس کو بھی بلاک کر سکتے ہیں۔ کیا خیال ہے فورٹ نائٹ اور انسٹاگرام کو بلاک کیا جائے؟
آپ انٹرنیٹ کے استعمال کا دورانیہ بھی متعین کر سکتے ہیں اور تو اور سونے کے اوقات کا بھی تعین کیا جا سکتا ہے۔ آپ یہ سب ایک روایتی فلٹرنگ سروس سے بھی سرانجام دے سکتے ہیں، آج کل انٹرنیٹ کی سروس فراہم کرنے والے، سائبر سکیورٹی کے ادارے اور دیگر ویب براؤزرز گھرانے کے افراد کے لیے اپنی سروس پر موزوں تربیت فراہم کرتے ہیں۔
میری 11 اور 13 برس کی بیٹیوں نے احتجاجاً ’رازداری کی خلاف ورزی‘ سے متعلق شور کیا جس کی مجھے پوری توقع تھی۔
اس سب پر آواز انھوں نے تب اٹھائی جب انھیں محسوس ہوا کہ وہ جس ویب سائٹ یا ایپ کو استعمال کرتی ہیں، اس کی نگرانی میں کر رہی ہوتی ہوں۔ ایک بار جب میں نے انھیں یقین دلا دیا کہ یہ ان کی رازداری کے خلاف ایک عمل نہیں بلکہ ان کے تحفظ اور بھلے کے لیے ہے تو انھوں نے یہ مان تو لیا مگر خوشی سے نہیں۔
انٹرنیٹ میٹرز نامی آن لائن سیفٹی سے متعلق تنظیم کی طرف سے 2018 میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق 11 سے 16 سال کی عمر کے 65 فیصد نوجوان والدین کی لگائی جانے والے پابندیوں کے حق میں تھے۔
برطانیہ کی چلڈرن کمیشنر این لانگفیلڈ کے خیال میں قدغن لگانا اچھی تربیت کے زمرے میں آتا ہے۔
این کہتی ہیں ’انٹرنیٹ ایک اچھا ذخیرہ ہو سکتا ہے لیکن بچوں کے لیے یہ بہت خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ ہم اب بھی ایسا نہیں سوچتے کہ اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میں رات کے وقت پارک میں اکیلا چھوڑ دیں۔ بالکل اسی طرح ہمیں یہ بھی نہیں سوچنا چاہیے کہ بچوں کو بغیر کسی نگرانی اور پابندی کے انٹرنیٹ پر کھلا چھوڑ دیا جائے۔‘
ان فلٹرنگ ڈیوائسز کے نقصانات بھی ہیں۔
جوں ہی آپ کے بچے اپنے فون گھر سے باہر لے کر جاتے ہیں اور گھر کے وائی فائی سے کٹ جاتے ہیں تو کچھ فلٹرنگ ڈیوائسز کام کرنا بند کر دیتی ہیں۔ یہ آلات تب بھی کام نہیں کریں گے اگر گھر کا وائی فائی بند ہو اور آپ اپنے موبائل نیٹ ورک سے انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہوں۔
’اگر آپ چند مخصوص ویب سائٹس کو لے کر پریشان ہیں تو آپ گھر کے براڈ بینڈ کنیکشن پر سیف سرچ لگا سکتے ہیں جو مفت ہے اور شاید کافی بھی۔ اس کے علاوہ آپ گوگل سیف سرچ یا یوٹیوب پر ریسٹریکٹڈ موڈ لگا سکتے ہیں۔‘
ایک اور طریقہ یہ ہے کہ آپ نئی طرز کے تیز رفتار راؤٹر خرید لیں جو نہ صرف تیز رفتار انٹرنیٹ فراہم کریں گے بلکہ ان میں پہلے سے ہی والدین کے لیے وہ طریقہ کار واضح ہے جس سے وہ انٹرنیٹ پر ہونے والی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتے ہیں۔
امریکہ سے تعلق رکھنے والی ’سیوی سائبر کڈز‘ کے بانی بین ہیلپرٹ کہتے ہیں ’جب بچے ایک مخصوص عمر تک پہنچ جاتے ہیں تو یا تو ان کے دوست احباب انھیں طریقے بتا دیتے ہیں یا وہ خود ان پابندیوں سے بچنے کا راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ آپ چاہے جس مرضی ٹیکنالوجی کا استعمال کر لیں مگر آپ کے بچے پھر بھی اس مواد کو دیکھ لیں گے جس سے آپ انھیں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔’
ان کے خیال میں بچوں کے ساتھ اعتماد کا تعلق قائم کرنا اور ٹیکنالوجی کے استعمال پر بحث مباحثہ کرنا بہت ضروری ہے۔
بہت سے ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بچوں کے آن لائن تحفظ کے لیے بحث، تعلیم اور مذاکرات اُتنے ہی ضروری ہیں جتنا کہ اس مسئلے کے لیے کوئی تکنیکی حل نکالنا۔