نئے پاکستان میں نئے سال کا پہلا کالم ہے۔ نئی راتیں ہیں نرالا چاؤ…. سیدھے پاؤں کی ایڑی مگر وہاں گھوم کے رہ جاتی ہے جہاں جنگل کی ایک پراسرار گپھا سے ناصر کاظمی کی صدا سنائی دیتی ہے، جو قافلے تھے آنے والے، کیا ہوئے…. قریب ہی پھولوں کے ایک کنج سے فیض کے گیان کی بازگشت سنائی دیتی ہے، آتے آتے یونہی دم بھر کو رکی ہو گی بہار…. قدرے کھردرا تاثر یہ ہے کہ یہاں فیض صاحب کے ایقان میں ثبات سے زیادہ غم خوار کی درد آشنا تشفی جیسا لہجہ محسوس ہوا…. آج کی تقویم کا موزوں تر عنوان تو شاید پابلو نیرودا کی اس نظم سے برآمد ہوتا ہے جو اس نے ہسپانیہ کی خانہ جنگی کے دوران لکھی تھی…. I’ll explain a few things درویش نے کبھی اس نظم کا کٹا پھٹا ترجمہ کیا تھا لیکن جنرل پرویز مشرف اور جنرل تنویر نقوی کےDevolution Plan سے پیدا ہونے والی نسل اسپین کی خانہ جنگی کے بارے میں کیا جانے گی، اسے تو جولائی 1987 میں صدر بازار کراچی کی رونق اجاڑنے والا وہ دھماکہ بھی یاد نہیں ہو گا جس میں سفید پوش کا بدن ڈھانپنے والے لنڈے کے کپڑے اور غریب بچیوں کے سستے خوابوں جیسی نقلی چوڑیاں وغیرہ ریڑھیوں پر رکھ کر بیچنے والے مارے گئے تھے۔ بدقسمت ہے وہ قوم جو اپنی تاریخ پر غور کرنا پسند نہیں کرتی۔ خوش نصیب ہیں وہ سیاسی گھس بیٹھیے اور مسلح درانداز جنہیں پشت در پشت جعلی خواب اور کھوکھلے نعروں کے خریدار میسر ہوں۔ درماندہ ہے وہ بستی جہاں مثبت کالم لکھنے والے اپنی گزشتہ خامہ فرسائیوں کو تلف کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔ بنجر ہے وہ منطقہ جہاں طالع آزماؤں کی خوابیدہ خواہشوں کو انمل ہذیان کے لبادے میں لپیٹ کر انسانی ذہانت کی توہین کرنے والے روحانی عرفان کا دعویٰ رکھتے ہوں۔
مگر یہ قصے تو کوچہ و بازار کے مناظر ہیں جہاں جنون کی تال پر چنگھاڑتا اک جلوس بے تماشا گاہے دائیں نکل جاتا ہے، گاہے بائیں طرف کا رخ کرتا ہے۔ یہ کھیل ابھی جلد ختم ہونے کا نہیں۔ آنکھ والوں کے لیے لیکن فکر کے کہیں گھمبیر تر موضوعات موجود ہیں۔ بے کار میں الزام کا ڈھول پیٹنے کی بجائے قابل تصدیق معاملات پہ بات کرنی چاہئیے۔ گذشتہ اگست میں جس مالیاتی بحران نے سر اٹھایا تھا ابھی اسے قابو میں نہیں لایا جا سکا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کسی نامعلوم قضیئے پر جمود کا شکار ہیں۔ ادھر ادھر سے جو متبادل امیدیں باندھی تھیں، ان کے بارے میں یہی سمجھنا چاہیے کہ صحرائی بگولوں پہ بیٹھ کے یہ دریا پار نہیں ہو سکتے۔ افغانستان میں طالبان اور امریکیوں کے باہم مذاکرات میں ہمارا حصہ اتنا ہی سمجھیے جتنا جولائی 71 میں امریکہ چین مذاکرات کی سہولت کاری سے مل سکا تھا۔ افغان مجاہدین 1990 میں ہمارے قابو میں نہیں تھے۔ ستمبر 2001 میں طالبان نے ہماری ایک مان کے نہیں دی۔ 2019 میں تو حالات بہت بدل چکے ہیں۔ ہم نے کچھ کبوتر خلیج کی طرف بھی چھوڑے ہیں۔ وہاں سے بھی کچھ حاصل وصول نہیں ہو گا۔
اندرون ملک مختلف منطقوں میں پنجہ آزمائی جاری ہے۔ برسر اقتدار سیاسی جماعت حکومت سے باہر موجود سیاسی قوتوں کو ملیامیٹ کرنا چاہتی ہے۔ یہ خواہش پوری نہیں ہو سکے گی۔ بنگالے کی اس مہم پہ نکلنے والوں کو یہ خیال ہی نہیں رہا کہ ان کی صفوں میں کرائے کے نیزہ باز رونق دے رہے ہیں اور ان کا دوماہہ بھی کہیں اور سے ادا کیا جاتا ہے۔ احتساب سنجیدہ سیاسی اور معاشی معاملات سے توجہ بٹانے کا ایک کارآمد نسخہ ہے۔ لیکن اس کی مدت مختصر ہوتی ہے۔ احتساب اور معیشت میں معکوس تناسب پایا جاتا ہے۔ احتساب کا جلوس شان و شوکت سے نکلتا ہے لیکن اس میں بجنے والی گھنٹیوں کے بارے میں بار بار پوچھتے رہنا چاہئیے کیونکہ پادری صاحب کو اکثر معلوم نہیں ہوتا کہ تابوت میں کس کا جنازہ رکھا ہے۔
ملک کے اندر اصل سیاسی مجادلہ وسیع تر آئینی بندوبست پر کشمکش سے تعلق رکھتا ہے۔ رسمی طور پہ یہ بحث ابھی سامنے نہیں آئی۔ حیلوں بہانوں سے ہوا کا رخ بھانپنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دو نکات اب تک سامنے آئے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ کچھ مہربان اٹھارہویں آئینی ترمیم سے خوش نہیں ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ سرے سے پارلیمانی جمہوریت کا بستر لپیٹ کر صدارتی نظام کی طرف مراجعت کا ارادہ ہے۔ اس ضمن میں پہلی خبر عمران خان اور ان کے ہمنواؤں کو ہونی چاہئیے۔ صدارتی نظام کی صورت میں تحریک انصاف کے لئے حکومت میں کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ 1956ء کا آئین پارلیمانی تھا۔ ہم نے منسوخ کر کے باسٹھ کا صدارتی آئین متعارف کرایا۔ یہ صدارتی نظام اس قدر موثر ثابت ہوا کہ اپنے خالق ایوب خان کے ساتھ ساتھ آدھے سے زیادہ ملک کو بھی لے ڈوبا۔ 1973ء میں باقی ماندہ پاکستان کی سیاسی اور جمہوری قیادت نے پارلیمانی دستور تشکیل دیا۔ وفاقی اکائیوں کی موثر خودمختاری کے لئے ایک مقررہ مدت کی ضمانت دی گئی۔ تقویم کے اس نشان تک پہنچنے سے پہلے ہی غیر جماعتی پارلیمینٹ کے سر پر پستول رکھ کر آٹھویں آئینی ترمیم مسلط کی گئی۔ 1973ء کے آئین کو صدارتی لبادہ پہنا دیا گیا۔ اس ترمیم میں شامل دفعہ اٹھاون ٹو بی نہ صرف یہ کہ چار منتخب حکومتیں نگل گئیں بلکہ اکتوبر 1999 پہ منتج ہوئی۔ 2003ء میں سترہویں آئینی ترمیم نے ایک بار پھر صدارتی نظام مسلط کیا۔
قوم کے نمائندوں نے اپریل 2010 میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے قوم، ریاست اور وفاق کے تعلق کو جمہوری امنگوں سے ہم آہنگ کیا۔ معلوم ہوا کہ کہیں کوئی ایسی قوت موجود ہے جسے پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت اور صوبائی حقوق قبول نہیں۔ اس کی وجہ بیان کی جا سکتی ہے لیکن کچھ باتیں پڑھنے والے کی ذہانت پر چھوڑ کر عملی تجاویز کی طرف آنا چاہیے۔ جن دنوں طالبان ہمارے ہم وطنوں کا لہو پانی کی طرح بہا رہے تھے تو کچھ عقلمند مذاکرات کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ تنازعات کی طویل تاریخ کے باوجود رابطے کے کچھ راستے کھلے رکھے جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر اختلافات دور کرنے کے لیے بھارت اور طالبان سے بات چیت کی جا سکتی ہے تو پاکستان کی ریاست اور عوام میں رابطوں کی کامیابی تو کہیں آسان ہے۔ مقصد کے ایک ہونے پر کوئی شک نہیں۔ پاکستان کی سلامتی، معیشت کی ترقی اور لوگوں کے معیار زندگی میں بہتری، اس تین نکاتی ایجنڈے پر شاید ہی کسی کو اختلاف ہو۔ دستیاب وسائل فریقین کے علم میں ہیں۔ باہم اعتماد کی فضا میں بیٹھ کر یہ سوچنا ہے کہ کیسے کم وسائل اور زیادہ ضروریات میں ایسا توازن نکالا جائے جو فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔
ایک معمولی صحافی ہوتے ہوئے بھی درویش جانتا ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں میں ایسے مدبر، تجربہ کار اور محب وطن رہنما موجود ہیں جن کی زندگیاں اس خواب میں بسر ہوئی ہیں۔ دوسری طرف ریاست کے تمام اداروں میں ایسے موجودہ اور سابقہ ذی فہم اور اہل افراد کی کوئی کمی نہیں جو معاملات کی سوجھ بوجھ اور مسائل کا حل نکالنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ریاست اور عوام ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہوئے کوئی ایسا غیرعلانیہ بندوست مرتب کریں جہاں میڈیا کی چکا چوند اور عوامی بیان بازی سے ہٹ کے اس اعتماد کے ساتھ دل کی بات کہی جائے کہ پاکستان کا مستقبل بحران اور تصادم کے تسلسل میں نہیں، اس زمین پر رہنے والے افراد، وفاقی اکائیوں، طبقات، اداروں اور مکاتب فکر میں ایسا اعتماد پیدا کرنے میں ہے جس کی روشنی میں سازش کی بجائے کھلے آسمان تلے ایک پرامن، متنوع اور ترقی یافتہ قوم تعمیر کی جا سکے۔